گھریلو تشدد کا شکار خواتین کو سسرالی مکان میں رہنے کا حق

   

محمد اسد علی ،ایڈوکیٹ
ہندوستان میں مشترکہ خاندان کا برسوں سے رواج رہا ہے جس میں خصوصیت کے ساتھ بزرگوں کی خدمت اور اُن کے ساتھ قیام کرنے پر زور دیا جاتا رہا لیکن موجودہ دُور میں بدلتے ہوئے فیشن سے متاثر ہونے والے خاندان ’’نیوکلیئر فیملی‘‘ کو ترجیح دے رہے ہیں جس میں شوہر، بیوی اور بچے شامل رہتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بدلتے ہوئے دور میں خواتین پر مظالم اور ہراسانی کے واقعات میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ دستور کے تحت ایسی خواتین جو کسی بھی نوعیت کے تشدد کا شکار ہوتی ہے، ایسی خواتین کو دستور کے تحت خواتین کے حقوق کا موثر تحفظ ، قانون کے ذریعہ فراہم کیا جاتا رہا ہے۔ خواتین گھریلو تشدد DVC AC+2005 کے ذریعہ تحفظ کی بناء پر خواتین کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ گھریلو تشدد کے خلاف امداد طلب کرے، اگر کوئی شخص یا اشخاص اس کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے یا ہے، اگر آپ کو زدوکوب کیا جاتا ہو، جہیز کے کسی بھی غیرقانونی یا دیگر جائیداد یا قیمتی سکیورٹی کیلئے دباؤ ڈالا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو ’’گھریلو تشدد‘‘ کا سامنا ہے جیسے جہیز وغیرہ نہ لانے پر توہین کرنا ، آپ کو یا آپ کے بچوں کی کفالت کیلئے پیسے نہ دینا، اولادِ نرینہ نہ ہونے پر بے عزتی کرنا، تھپڑ مارنا، پیر سے مارنا، لفظی و جذباتی بدسلوکی کرنا، جس گھر میں آپ رہتے ہوں، وہاں سے نکال پھینکنا، مجرمانہ دھمکیاں دینا، بدسلوکی کرنا، جسمانی تکلیف یا زخم پہونچانا، جنسی بدسلوکی کرتا، جسمانی بدسلوکی کرنا وغیرہ وغیرہ یہ سب گھریلو تشدد میں شامل ہیں۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ نے گھریلو تشدد کا شکار خواتین کے حق میں ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شادی شدہ خواتین Domestic Violence Act کے تحت گھر میں رہنے کے حق کا دعویٰ کرسکتی ہیں۔ چاہے وہ سسرال والوں کا ذاتی گھر ہی کیوں نہ ہو۔ سپریم کورٹ نے بہترین فیصلہ کیا جس میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اپنے شوہر کا گھر ہو یا سسرال کی ملکیت ، اس میں رہنے کا حق جتا سکتی ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ دورِ اندیشی پر مبنی ہے اور اس پر عمل آوری کی شدید ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو مظلوم خواتین عدالت کا دروازہ کھٹکاتے ہوئے عدلیہ کے فیصلے کے مطابق انصاف اور اپنا حق حاصل کرسکتی ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ آج کل غیراسلامی عدالتوں سے مطلقہ خواتین کیلئے نفقہ کا فیصلہ ہورہا ہے جبکہ شرعی نقطہ نظر سے صرف عدت ہی کا نفقہ سابق شوہر پر واجب ہوتا ہے۔ ’’اسلام کے عائلی قوانین ، ایک نظر میں‘‘ اس کتاب کو جلیس سلطانہ یٰسین ایڈوکیٹ نے ترتیب دیا ہے اور ناشر تفہیم شریعت کمیٹی، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، نئی دہلی ہے۔ اس کتاب میں صفحہ نمبر 69 میں بتایا گیا ہے کہ عدلیہ کے بعض فیصلوں کے مطابق مطلقہ جب تک دوسرا نکاح نہ کرے یا وہ فوت نہ ہوجائے ، مطلقہ کے نفقہ کا لزوم ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں یہ بالخصوص مسلمانوں کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو مخالفینِ اسلام کا اُٹھایا ہوا ہے کہ بیوہ عدت کے بعد اپنے اخراجات کی پابجائی کیسے کرے؟ الحمدللہ! اسلام نے اس گوشہ کو بھی تاریک نہیں چھوڑا بلکہ اسلامی احکام کی یہ جامعیت اور اس کا کمال ہی تو ہے کہ اس نے اس کا حل پیش کیا ہے، ایک حل تو یہ ہے کہ بیوہ عورت کا دوسرا نکاح کردیا جائے۔ قرآن پاک میں ایسی عورتوں کے اولیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایسی عورتوں کا نکاح کریں اور صفحہ نمبر 70 میں بتایا گیا ہے کہ بیوی اگر اپنے والدین وغیرہ سے حسب قاعدہ ملنے کیلئے جانا چاہتی ہے بشرطیکہ اس میں کسی خرابی یا فساد کا امکان نہ ہو تو شوہر کو چاہئے کہ اس کی اجازت دے لیکن اگر شوہر بلاکسی وجہ کے اجازت نہ دے تو بیوی کو شریعت نے یہ حق دیا ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر بھی وہ اپنے والدین سے ہر ہفتہ ملاقات کرسکتی ہے جبکہ بیٹی سے ملاقات کیلئے آنے سے والدین عاجز ہو اور دیگر محارم و قرابت داروں سے سال میں ایک مرتبہ ملاقات کیلئے جانے کی اجازت ہے۔ والدین اور اقارب کا قیام نزدیک ہوکہ دُور البتہ آمدورفت کے مصارف شوہر پر واجب نہیں رہیں گے۔ شرعی مسافت سفر ہو تو دوران سفر محرم کا ساتھ ضروری ہے۔ والدین کے پاس قیام مطلوب ہو تو شوہر کی اجازت ضروری ہے۔شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کا قیام جائز نہیں۔ شوہر کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ بیوی کو اپنے والدین سے ملنے سے روکیں، نہ اس کی اجازت ہے کہ اس کے والدین کو آنے سے منع کرے، شوہر اگر ایسا کرے تو حکم شرع کی خلاف ورزی کی بناء پر گنہگار ہے۔ والدین کو کوئی عذر و مجبوری نہ ہو تو بہتر صورت یہی ہے کہ وہ خود اپنی بیٹی سے ملاقات کیلئے جایا کریں۔ اگر والدین کیلئے عذر کی بناء پر یہ ممکن نہ ہو تو پھر بیٹی خود ملاقات کیلئے حسب سہولت و انتظام جایا کرے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اسلام نے شوہر پر مطلقہ خواتین کیلئے صرف عدت کا نفقہ واجب کیا ہے۔ عدت کے بعد شوہر بالکل اجنبی ہوجاتا ہے اور اس کا عورت سے کوئی رشتہ باقی نہیں رہتا۔ اس لئے عدت کے بعد سابق شوہر سے غیراسلامی عدالتوں کے ذریعہ نفقہ (Maintenance) حاصل کرنا قابل قبول نہیں ہے بلکہ یہ ظلم ہے۔ بعض ایڈوکیٹ کی جانب سے مطلقہ اور شوہر کی نافرمانی اور شوہر پر ظلم کرنے والی عورت شوہر کی بغیر اجازت مائیکہ میں رہ کر گذارہ حاصل کرنے والی عورتوں کو غیرشرعی عدالتوں سے نفقہ کی پیروی کرنا کہیں ہم شریعت کی خلاف تو کام نہیں کررہے ہیں؟ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ہرگز ایسا Case نہ لیں جو شریعت کے خلاف ہو، ورنہ ہم ایک دن خالق کائنات کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔