میر عثمان علی خان کی خصوصی دلچسپی، پرشکوہ عمارت کی تعمیر میں سرکردہ انجینئرس کا اہم کردار
حیدرآباد ۔ 20 اپریل (سیاست نیوز) 20 اپریل کو ہائیکورٹ عمارت کے ایک سو سال مکمل ہوگئے ہیں۔ قلب شہر موسیٰ ندی کے کنارے 20 اپریل 1920 کو ہائیکورٹ عمارت کا افتتاح عمل میں آیا تھا۔ یہ عمارت نہ صرف صدسالہ دور کی زندہ مثال ہے بلکہ کئی تاریخی واقعات سے بھرپور عمارت ہے جو عدالتی نظام میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ انگریزوں کے دورحکومت میں 543 مختلف علاقائی حکومتوں میں اولین اعلیٰ عدالت کیلئے خصوصی عمارت کی تعمیر کا سہرا نظام حکومت کو ہی حاصل ہے۔ اس سے قبل سیف آباد کے علاقہ میں ایک تنگ کرایہ کی عمارت میں اعلیٰ عدالت کام کیا کرتی تھی اور ساتویں نظام میر عثمان علی خان نے 15 اپریل 1915 کو ہائیکورٹ عمارت کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا جس کا جے پور سے تعلق رکھنے والے آرکٹکٹ شنکرلال نے ڈیزائن تیار کیا اور نظام حکومت کے چیف انجینئر اکبر بیگ اور ایک دوسرے انجینئر مہر علی فضل کی نگرانی میں عمارت تعمیر کی گئی۔ ہائیکورٹ کی تعمیر کیلئے شمس آباد کے پاس واقع گگن پہاڑ سے پتھر تراش کر لائے گئے تھے اور 31 مارچ 1919ء کو ہائیکورٹ عمارت کی تعمیر مکمل ہوئی تاہم میر عثمان علی خان نے اس عمارت کا افتتاح 20 اپریل 1920ء کو انجام دیا تھا اور اس عدالت کی خصوصیت یہ ہیکہ ابتداء میں شریعت اسلامی قوانین کے مطابق فیصلے کئے جاتے تھے مگر بتدریج غیرمسلم آبادی کثیر تعداد میں ہونے کی وجہ سے ہندو لاء کے مطابق بھی فیصلے کئے جاتے تھے اور اس معاملہ میں چھٹویں نظام نے مسلم ججس کے ساتھ ساتھ ہندو قوانین میں مہارت رکھنے والوں کا بھی جج کی حیثیت سے تقرر کیا جاتا تھا۔ 1957ء کے انتخابات میں چادرگھاٹ، پراناپل، مغلپورہ اور لال دراوزہ کو ملا کر حلقہ اسمبلی ہائیکورٹ بنایا گیا تھا بعدازاں 1962ء کے انتخابات میں حلقہ اسمبلی چارمینار میں ضم کردیا گیا تھا۔ ہائیکورٹ عمارت کی صدسالہ تقاریب کا ہفتہ سے آغاز ہوچکا ہے اور ان تقاریب میں سپریم کورٹ کے ججس جسٹس سبھاش ریڈی، جسٹس ایل ناگیشور راؤ، جسٹس این وی رمنا اور تلنگانہ ہائیکورٹ کے چیف جج جسٹس راگھاویندرا سنگھ اور دیگر ججس شرکت کریں گے۔ تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتا ہیکہ نظام دورحکومت 1920ء میں پھانسی کی سزاء کو برخاست کردیا گیا۔
