ہانگ کانگ ۔ یکم ؍ جولائی (سیاست ڈاٹ کام) 1997 میں ہانگ کانگ کے انتظامی امور چین کے حوالے کیے جانے کے بعد یکم جولائی کو ہر سال علامتی طور پر احتجاج کیا جاتا ہے۔ اس سال بھی ایک مجوزہ قانون پر غم و غصے میں مبتلاء عوام بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکلے۔آج سے بائیس برس قبل برطانیہ نے ہانگ کانگ کے انتظامی امور چین کے حوالے کر دیے تھے۔ اس موقع پر ہانگ کانگ میں وسیع تر ریلیاں نکالی جا رہی ہیں جن میں ہزاروں افراد شریک ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں ہانگ کانگ چینی حکومت کی مخالفت اور جمہوریت کے حق میں احتجاجی تحریک کا گڑھ بنا رہا ہے۔ عوام میں ان دنوں ایک مجوزہ بل پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کے تحت مشتبہ افراد کو چین کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ گو کہ مظاہروں اور دھرنوں کی صورت میں زبردست عوامی رد عمل کے سبب اس بل پر کام معطل کر دیا گیا تھا تاہم عوام نے احتجاج جاری رکھا ہوا ہے اور اب ان کا مطالبہ ہے کہ ہانگ کانگ کی رہنما کیری لیم اپنے عہدے سے مستعفی ہوں۔اس موقع پر خبر رساں ادارے روئٹرز نے موجودہ حالات پر ہانگ کانگ کے لوگوں سے ان کی رائے جانی اور یہ بھی دریافت کیا کہ لوگ سڑکوں پر کیوں نکلے ہیں۔59سالہ ایلزویر ینگ کہتے ہیں، ”میں ویسے تو یکم جولائی کو ہر سال ہی ریلی میں شرکت کرتا ہوں لیکن اس بار میں حوالگی سے متعلق مجوزہ قانون پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے خصوص طور پر آیا ہوں۔‘‘لاؤ نامی ایک بیس سالہ نوجوان نے بتایا، ’’میں یکم جولائی کو پہلی مرتبہ احتجاج میں شریک ہوا ہوں۔ میں یہاں احتجاج اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ کیری لیم مجوزہ بل کو مکمل طور پر خارج نہیں کریں گی۔‘‘ 18 سال جونی سو کے مطابق، ’’میں گزشتہ رات ڈیڑھ بجے سے یہیں ہوں۔ میں مزید نہیں رکوں گا کیونکہ ہمارا مقصد ناکام ہو چکا ہے۔ ہم پرچم کشائی کی تقریب رکوانے میں ناکام رہے۔‘‘ 26سالہ بونی وونگ نے پیر کی ریلی میں شرکت نہیں کی۔ ان کے بقول، ’’میں اس لیے نہیں جا رہا کیونکہ حالات بگڑ سکتے ہیں‘‘۔
کہیں نہ کہں جھڑپیں ضرور ہوں گی۔‘‘دریں اثناء ہانگ کانگ میں پولیس کی جانب سے مظاہرین کے خلاف تشدد کا استعمال کیا گیا ہے۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پیپر یا مرچوں والے اسپرے اور ڈنڈوں کا استعمال کیا گیا۔ مشتعل مظاہرین نے سرکاری عمارات پر دھاوا بولنے کی کوشش کی، جسے حکام نے طاقت کے استعمال سے ناکام بنا دیا۔ پیر کے روز شہر میں حالات کافی کشیدہ رہے۔