جامع مسجد عالیہ میں ’’وبائی امراض ایک شرعی جائزہ‘‘ سے پروفیسر سید راشد نسیم ندوی کا خطاب
حیدرآباد ۔ یکم مارچ (پریس نوٹ) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہر دو عالم کی حقیقتوں کی جانب لطیف اشارے فرمائے ہیں۔ ان حقیقتوں کا تذکرہ راست ہدایت انسانی سے تعلق رکھتا ہے۔ رجز من السماء کی تعبیر سے ایسے بھی وبائی امراض کا تذکرہ کیا جو کبھی عذابِ الٰہی کی شکل میں رونما ہوئے تو کبھی امتحان و آزمائش کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ فی زمانہ کورونا وائرس کی جو تباہ کاریاں نظر آرہی ہیں وہ دراصل بندوں کے لئے ایک پیغام ہے کہ وہ اپنے مالکِ حقیقی کی معرفت پیدا کرلیں اور اس کی نافرمانی سے باز آجائیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سید راشد نسیم ندوی نے شریعت انفارمیشن سرویس کی 799 ویں نشست کو بعنوان ’’وبائی امراض : ایک شرعی جائزہ‘‘ مخاطب کرتے ہوئے جامع مسجد عالیہ، گن فاؤنڈری میں کیا۔ ابتداء میں حافظ محمد شاہد حسین کی قرأت کلام پاک سے نشست کا آغاز ہوا۔ مقرر نے سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے کہاکہ وبائی امراض کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر بندۂ مسلم کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل توکل اور یقین ہونا چاہئے کہ اس کے حکم کے بغیر کوئی چیز انسان کو نہ نفع پہنچاسکتی ہے اور نہ نقصان۔ اس توکل کے ساتھ اللہ کے رسول کے اس ارشاد کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے جو آپ ﷺ نے طاعون پھیل جانے کی صورت میں ارشاد فرمایا تھا کہ ایسی بستی میں نہ داخل ہونے کی ضرورت ہے اور نہ اس آبادی کے لوگ باہر آئیں۔ نیز اس موقع پر شریعت اسلامی میں صفائی کی تاکید بھی مدنظر رہنی چاہئے۔ ہر نماز کے لئے وضو کرنا تو ضروری ہے کہ اس کے علاوہ بہت سے مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو اور ہاتھ دھونے کی تاکید فرمایا کرتے تھے، جس سے کورونا وائرس جیسے امراض کی روک تھام اور تدارک ہوسکتا ہے۔ نیز شریعت اسلامی میں خبائث (ناپسندیدہ غذاؤں) کو حرام کیا گیا اور طہارت یعنی صاف ستھری اور پاکیزہ غذاؤں کو حلال کیا گیا۔ اگر انسان اس ہدایت ربانی کی پابندی کرے تو یہ امراضِ خبیثہ جنم نہیں لے سکتے۔ دوسری جانب اللہ تعالیٰ نے بے محابا اختلاط کو حرام قرار دے کر فواحش پر بھی قدغن لگادی جس سے امراض پھیلتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانانِ عالم نہ صرف ان ہدایات ربانی پر عمل کریں بلکہ ان کی افادیت سے پیاسی انسانیت کو بھی روشناس کرائیں تاکہ اس آسمانی ہدایت سے ساری انسانیت مستفید ہوسکے۔ کنوینر محافل جناب غلام یزدانی سینئر ایڈوکیٹ نے عنوان کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ مقرر کی دعا پر لکچر کا اختتام ہوا۔
