ہلدوانی میں غیر قانونی مدارس کے خلاف بڑی مہم، 13مدارس مہربند

,

   

نینی تال: اتراکھنڈ کے ہلدوانی میں غیر قانونی طور پر چل رہے مدرسوں کے خلاف اتوار کو ایک بڑی مہم چلائی گئی۔ اس کے تحت 13 مدارس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں مہربند کردیا گیا۔ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ وویک کمار رائے کے مطابق تحقیقات سے پتہ چلا کہ ہلدوانی میں مجموعی طورپر 18 مدرسے غیر قانونی طور پر چلائے جا رہے ہیں۔ آج ان مدارس کے خلاف مہم چلائی گئی۔ جن میں سے 13 مدارس کو موقع پر ہی سیل کر دیا گیا ہے ۔سیل کیے گئے مدارس کے پاس رجسٹریشن کے کاغذات نہیں تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک مدرسہ بند پایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ مہم پیر کو بھی جاری رہے گی۔اس دوران سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (سٹی) پرکاش چندر، سٹی مجسٹریٹ اے پی باجپئی، میونسپل کمشنر ریچا سنگھ، سب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پریتوش ورما، ریکھا کوہلی، پولیس سرکل آفیسر نتن لوہانی، دیپ شیکھا اگروال، تحصیلدار منیشا بشٹ، کلدیپ پانڈے ، سوشل ویلفیئر افسر وشوناتھ سمیت مختلف پولیس اسٹیشن انچارج اور ضلع پولیس کے بھاری فورس موجود تھی۔

مدھیہ پردیش میں وقف ترمیمی قانون کے تحت پہلا مدرسہ منہدم!
بھوپال: مدھیہ پردیش کے ضلع پنا (Panna) میں واقع ایک 30 سال پرانا مدرسہ ہفتہ، 12 اپریل کو منہدم کر دیا گیا۔ یہ پہلا مسلم ملکیتی مذہبی ڈھانچہ ہے جسے حال ہی میں نافذ کیے گئے وقف ترمیمی قانون کے تحت نشانہ بنایا گیا ہے۔مدرسہ بی ڈی کالونی میں واقع تھا اور تقریباً تین دہائیوں سے قائم تھا۔ میڈیا کے مطابق حکام کا دعویٰ ہیکہ یہ مدرسہ غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا، تاہم مدرسے کے مالک نے کہا کہ انہوں نے مقامی گرام پنچایت سے باقاعدہ اجازت حاصل کی تھی۔حکام کا کہنا ہیکہ مدرسے کے مالک کو نوٹس جاری کی گئی تھی لیکن معاملہ قانونی کارروائی کی وجہ سے تاخیر کا شکار رہا۔ نئے قانون کے تحت اب یہ علاقہ میونسپل کارپوریشن کے دائرہ اختیار میں آ گیا ہے۔
، اس لیے اس تعمیر کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔تاہم، مدرسے کے مالک نے خود ہی سرکاری کارروائی سے بچنے کے لیے بلڈوزر کے ذریعے اس عمارت کو منہدم کر دیا، تاکہ براہ راست سرکاری مداخلت سے بچا جا سکے۔یہ قانون 5 اپریل کو صدر دروپدی مرمو کی منظوری کے بعد 8 اپریل کو نافذ ہوا۔ پارلیمنٹ میں اس قانون پر شدید بحث ہوئی، جس کے بعد اسے منظور کیا گیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قانون شفافیت، پسماندہ مسلمانوں اور مسلم خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے لایا گیا ہے۔تاہم، متعدد مسلم تنظیمیں، جن میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (AIMPLB) اور حزبِ اختلاف کے اراکینِ پارلیمان شامل ہیں، اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر چکے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون آئین کی خلاف ورزی ہے اور مسلمانوں کے حقوق پر قدغن لگاتا ہے۔