طالبان بدل گئے یا ہندوستان ؟
 بہار … برقعہ کے نام پر یوگی کی زہرافشانی
رشیدالدین
طالبان۔ کبھی یہ لفظ گالی کی طرح تھا لیکن آج بی جے پی اور مودی حکومت کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن چکا ہے ۔ گزشتہ دس برسوں میں طالبان کے نام پر مسلمانوں اور مسلم اداروں کو نشانہ بنانے والے بی جے پی قائدین کی زبان پر تالے لگے ہوئے ہیں ۔ افغانستان پر طالبان کے مکمل کنٹرول کے بعد جن افراد اور اداروں نے تائید کی تھی ، ان پر ملک سے غداری کے مقدمات درج کئے گئے ۔ طالبان کہتے ہوئے مسلمانوں کو کئی برسوں تک گالی دی جاتی رہی۔ جو مسلمان بھی اپنے حق کی بات کرے اور ظلم کی مخالفت کرے ، اسے طالبانی فکر کا حامل قرار دے کر نشانہ بنایا گیا۔ جس ملک میں طالبان ایک گالی بن چکا تھا ، آج اسی ملک کی سر زمین پر طالبان وزیر خارجہ امیر خاں متقی کا ریڈ کارپٹ (سرخ قالین) استقبال کرتے ہوئے آؤ بھگت کی گئی۔ طالبان کو کل تک دہشت گرد قرار دینے والی مودی حکومت نے افغانستان سے سفارتی اور تجارتی روابط کے استحکام کا فیصلہ کیا ہے۔ افغانستان میں کیا حکومت تبدیل ہوچکی ہے یا پھر طالبان اب دہشت گرد نہیں رہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ حکومت تو طالبان کی برقرار ہے لیکن دہشت گردی کے بارے میں ہندوستان نے اپنا موقف تبدیل کرلیا ہے۔ طالبان تو وہی ہیں جو کل تک ہندوستان کی نظر میں دہشت گرد تھے لیکن ہندوستان بدل چکا ہے اور خارجہ پالیسی سے زیادہ ایک سیاسی کھیل کھیلتے ہوئے رنگ بدلنے کے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا۔ طالبان کے نام سے کل تک مسلمانوں کو گالی دینے والے بی جے پی قائدین گاندھی جی کے تین بندر بن چکے ہیں۔ بُرا مت سنو ، بُرا مت دیکھو ، بُرا مت کہو کے مصداق افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خاں متقی کی مہمان نوازی پر ایسے خاموش ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اگر کانگریس حکومت ہوتی اور امیر خاں متقی کا سرکاری طور پر استقبال ہوتا اور وہ دارالعلوم دیوبند جاتے تو بی جے پی اور سنگھ پریوار مخالفت میں سڑکوں پر دکھائی دیتے۔ کانگریس پر طالبانی کا لیبل لگانے میں دیر نہ ہوتی۔ نریندر مودی نے 2015 میں کہا تھا کہ Good طالبان اور Bad طالبان اب چلنے والا نہیں ہے ۔ دہشت گردی کا متحدہ طور پر مقابلہ ہوگا۔ نریندر مودی 2014 میں وزیراعظم بن گئے اور 2025 میں طالبان Good بن کر ہندوستان میں سرکاری مہمان بن کر گھومتا رہا ۔ طالبان کے بارے میں مودی حکومت اور بی جے پی کا موقف اچانک کیوں اور کس طرح تبدیل ہوا۔ کیا طالبان اب Bad سے Good ہوگئے یا دشمن کا دشمن ہمارا دوست کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو دھکا دینے کی کوشش ہے۔ موقف میں تبدیلی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے یا پھر سیاسی مجبوری، اس بارے میں نہ ہی وزارت خارجہ اور نہ بی جے پی نے کوئی وضاحت کی۔ امیر خاں متقی کی آمد سے لے کر واپسی تک بی جے پی ترجمانوں اور میڈیا ڈپارٹمنٹ پر سناٹا طاری تھا۔ ہر معمولی بات پر سوشیل میڈیا میں نمودار ہونے والے ترجمان غائب تھے۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی کسی بھی تنظیم نے متقی کے دورہ پر تبصرہ نہیں کیا۔ وزیر خارجہ افغانستان کا دورہ گودی میڈیا پر چھایا رہا اور گودی میڈیا کے چاٹو کار اینکرس حکومت کا دفاع کچھ اس انداز میں کر رہے تھے جیسے انہیں ذمہ داری دی گئی ہو۔ کل تک پانی کے گھونٹ پی پی کر طالبان اور ان کے حامیوں کو گالی دینے والے اینکرس اس دورہ کو پاکستان سے کشیدگی کے پس منظر میں اہم کامیابی قرار دے رہے تھے۔ حکومت نے اس قدر احتیاط ضرور کی کہ نریندر مودی سے متقی کی ملاقات کو شیڈول میں شامل نہیں کیا ورنہ ہندو ووٹ بینک متاثر ہوجاتا۔ متقی کی وزیر خارجہ جئے شنکر سے ملاقات نے سفارتی اور تجارتی روابط کے احیاء کا فیصلہ کیا گیا۔ ہندوستانی صنعت کاروں سے متقی کی ملاقات کرائی گئی ۔ طالبان کے کنٹرول کے بعد مختلف جہدکاروں اور سیاسی مبصرین نے ہندوستانی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ طالبان حکومت سے مذاکرات کرتے ہوئے سفارتی روابط قائم کریں۔ ایک طرف پاکستان اور دوسری طرف چین سے نمٹنے میں افغانستان سے دوستی مددگار ثابت ہوسکتی تھی ۔ ویسے بھی طالبان کی حکمرانی سے قبل ہندوستان نے افغانستان کی تعمیر نو میں اہم رول ادا کیا۔ افغانستان کی پارلیمنٹ کی نئی عمارت تعمیر کرتے ہوئے ہندوستان نے بطور تحفہ پیش کی۔ کئی اہم پل اور سڑ کیں ہندوستان میں تعمیر کیں۔ بعض انفراسٹرکچر پراجکٹس شروع کئے گئے ۔ وزرائے خارجہ کے مشترکہ بیان میں پہلگام حملہ کی مذمت کی گئی اور کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ حصہ قرار دیا گیا ۔ افغانستان کا یہ موقف پاکستان کو ناگوار گزرنا فطری تھا جس کا اظہار اس نے افغانستان کے مختلف علاقوں پر حملے کے ذریعہ کیا، جن کا نام لے کر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی گئی لیکن آج وزیر خارجہ جئے شنکر نے یہ کہتے ہوئے طالبان کو کلین چٹ دے دی کہ ہندوستان اور افغانستان دونوں بیرونی دہشت گردی سے متاثر ہیں۔ افغانی طالبان کل تک دہشت گرد تھے لیکن اب انہیں دہشت گردی سے متاثر قرار دیا جارہا ہے۔ موقف میں اچانک تبدیلی کیوں ؟ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ہندوستان نے ابھی تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن تعلقات کو مستحکم کرنے میں دلچسپی ہے۔ دوستی کرنا ہو تو شرمانے کی کیا ضرورت ہے۔ طالبان حکومت کو تسلیم کریں اور کھل کر سفارتی اور تجارتی روابط کا احیاء عمل میں لائیں اور یہی دونوں ممالک کے حق میں ہے۔ چیف منسٹر اتر پردیش کے وہ بیانات سوشیل میڈیا پر وائرل ہوئے جس میں انہوں نے طالبان کے حامیوں کو سخت کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ اگست 2021 میں سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ شفیق الرحمن برق کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ شفیق الرحمن برق نے طالبان کی اقتدار میں واپسی کا خیرمقدم کرتے ہوئے جدوجہد آزادی ہند کے مماثل قرار دیا تھا ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ امیر خاں متقی جب دیوبند پہنچے تھے تو یوگی حکومت نے سیکوریٹی انتظامات کئے ۔ اترپردیش حکومت کی جانب سے گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔ یوگی حکومت جب طالبانی وزیر کی مہمان نوازی میں مصروف ہیں تو پھر مقدمہ کس کے خلاف درج کیا جانا چاہئے ۔ امیر خاں متقی کے دورہ دیوبند کے سہارے طالبان سے رشتے بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ وہی دیوبند ہے جسے مودی اور یوگی حکومتوں نے بار بار نشانہ بنایا تھا۔
بہار میں انتخابی مہم کے آغاز کے ساتھ ہی وہی کچھ ہوا جس کا ڈر تھا۔ چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ نے بہار میں قدم رکھتے ہوئے ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے مسلم خواتین کو نشانہ بناتے ہوئے برقعہ کے استعمال کا حوالہ دیتے ہوئے شرانگیزی کی ہے۔ یوگی نے دعویٰ کیا کہ آر جے ڈی اور کانگریس کو ترقی نہیں بلکہ برقعہ چاہئے ۔ برقعہ کے ذریعہ فرضی ووٹ استعمال کرتے ہوئے کامیابی کی کوشش کی جائے گی۔ یوگی ادتیہ ناتھ پہلے یہ بتائیں کہ بہار میں ترقی کہاں ہے؟ ویسے بھی یوگی ادتیہ ناتھ کی زبان جب بھی کھلتی ہے ، وہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ انہوں نے برقعہ کے استعمال کا حوالہ دیتے ہوئے حج میں مسلم خواتین کے نقاب کے بغیر ہونے کا ذکر کیا اور کہا کہ ووٹ ڈالنے کیلئے چہرہ بتانے تیار نہیں ہے۔ دراصل یوگی نے ایک طرف الیکشن کمیشن تو دوسری طرف بی جے پی کارکنوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ بہار کی رائے دہی کے دوران مسلم خواتین کا چہرہ دیکھ کر ووٹ دینے کی اجازت دیں۔ جس ریاست میں الیکشن کمیشن کے ذریعہ ووٹ چوری کا معاملہ منظر عام پر آچکا ہے، اسی ریاست میں یوگی ادتیہ ناتھ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کل تک ہندوتوا کے نام پر نفرت کا پرچار کرنے والے آج سناتن کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ سناتن کے نام پر نفرت کی نئی لہر سپریم کورٹ تک پہنچ گئی اور گزشتہ دنوں اترپردیش کی رکن پارلیمنٹ اقراء حسن کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے سوشیل میڈیا میں مہم شروع کی گئی ہے۔ اقراء حسن نے شائد ہی کبھی کوئی متنازعہ بیان دیا ہو لیکن نفرت کے سوداگروں کو وہ پسند نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش میں پولیس عہدیدار حنا خاں کو کو متنازعہ نعرہ لگانے پر مجبور کیا گیا۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی مخالفت کرنے والے وکیل کی سڑک پر سالگرہ منانے کی کوشش کو پولیس نے ناکام بنایا جس پر پولیس عہدیدار حنا خاں کو مخالف سناتن کہہ دیا گیا۔ گزشتہ 11 برسوں میں مسلمانوں کے خلاف ہر سطح پر نفرت کی مہم عروج پر ہے اور ہندوؤں کو خطرہ میں دکھاکر ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے خلاف ماحول تیار کیا جارہا ہے تاکہ ہندو راشٹر کے قیام میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خاں متقی کی ہندوستان میں آؤ بھگت پر جوہر کانپوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
جنہیں کہا گیا آتنکی اب وہ شان ہوئے
ہمارے دیش کے مہمان طالبان ہوئے