ایس سرویشور
بی جے پی زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد ( این ڈی اے) اور اپوزیشن بلاک INDIA عام انتخابات 2024 کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے ہیں ۔ ان انتخابات میں دونوں اتحاد جن اہم پہلوؤں یا عنصر میں سے ایک اہم ترین پہلو پر زور دیں گے وہ معاشی عنصر ہے ۔اگرچہ کئی ماہرین اقتصادیات کا ماننا ہیکہ این ڈی اے ۔ I معاشی محاذ پر بری طرح ناکام ہوگئی ہے لیکن ہم سب نے دیکھا کہ اس ناکامی کے باوجود این ڈی اے ۔II نے پہلے سے کہیں زیادہ اکثریت سے کامیابی حاصل کی جس سے یہ سوالات اٹھنے لگے کہ آیا حکومت کی معاشی محاذ پر کارکردگی کا ہنوز رائے دہندوں کی جانب سے کی جانے والی رائے دہی کا ہنوز پیمانہ ہے یا نہیں کیونکہ اکثر عوام حکومت کی معاشی پالیسیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے ووٹوں کا استعمال کرتے ہیں ۔ تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں معاشی یا دیگر اہم محاذوں پر حکومت کی ناکامیوں کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ مذہب کی بنیاد پر رائے دہی ہونے لگی ہے اور عوام بآسانی مذہبی استحصال کے ساتھ ساتھ توہم پرستی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ہم بات کررہے تھے کہ معاشی محاذ پر ناکامیوں کے باوجود ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے انتخابات میں بی جے پی مسلسل کامیابی حاصل کرتی جارہی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کچھ نہ کچھ دال میں کالا ہے ۔ کئی ایک اسکالرس نے بی جے پی کی ان کامیابیوں کو مذہب ، ذات پات ، تہذیب و ثقافت کے سیاسی اغراض و مقاصد اور مفادات کیلئے استعمال کا نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ بی جے پی ووٹ حاصل کرنے کیلئے مذہب ، ذات پات ، تہذیب و ثقافت کا استعمال کرتی ہے اور ساتھ ہی وہ گودی میڈیا اور اپنی آئی ٹی ٹیم کا بھی غیر معمولی طور پر کامیابی سے استعمال کرتی ہے اور اسے سرمایہ کاروں کی مدد بھی حاصل ہے ۔ اکثر دیکھا جائے تو تجزیہ نگار، تبصرہ نگار اور اسکالرس ایک اہم پہلو کو فراموش کرجاتے ہیں ۔ وہ یہ کہ سنگھ پریوار اور اس کی سربراہ آر ایس ایس اپنے نظریات اور کلچر کے ذریعہ بی جے پی کو تقویت پہنچانے کا کام کررہی ہے ۔ اس کا کلچر ایک ایسا کلچر ہے جو ذات پات پر مبنی درجہ بندی ( اعلیٰ و ادنیٰ) عدم مساوات ، صنفی امتیاز ، پوتر اور اپوتر ، دوسروں سے خود کو برتر سمجھنا کے علاوہ غیر سائنسیعقائد جیسے جادو ٹونا ( کالا جادو ) ، توہم پرستی میں یقین رکھنا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ یہ کلچر یا تہذیب کا ایک عام حصہ ہے جو ان عقائد کے نظام اور اس پر عمل آوری کو جاری رکھنے کی اجازت دیتا ہے ۔
جب کانگریس نے بڑھتی مہنگائی اور بیروزگاری کیخلاف ملک بھر میں سیاہ لباس زیب تن کرتے ہوئے احتجاج کیا تو وزیراعظم نریندر مودی نے ان کی یہ کہتے ہوئے مذمت کی اور انہیں تنقید کا نشانہ بنایا کہ لوگ اس ’’ کالا جادو‘‘ کے جھانسہ میں نہیں آئیں گے ۔ مودی نے جو کچھ کہا یہ صرف ایک تشبیہ نہیں ہے بلکہ عوام میں گہرائی تک پیوست سماجی عقائد کو جان بوجھ کر ظاہرکردہ خیال تھا ۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2014-2021 کے درمیان قتل کی 819 وارداتیں پیش آئیں جن میں مرنے والوں پر جادو کرنے کے الزامات عائد کئے گئے ۔ یہ تعداد تو ان واقعات کی ہے جو درج کروائے گئے ہیں جو غیر درج شدہ واقعات ہیں اگر انہیں بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد بہت زیادہ ہوجائے گی ۔ اکثر واقعات میں یہی دیکھا گیا کہ متاثرین خواتین اور انتہائی کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں ۔ عقیدہ کا جو نظام ہم یہاں دیکھتے ہیں ان میں حسد جلن ، جادو ٹونا اور کالا جادو ایسے تین خطرناک چیزیں ہیں جنہیں سمجھنا ضروری ہے جہاں تک حسد جلن کا سوال ہے یہ اس نظام میں اپنی موجو دگی کا احساس دلاتی رہتی ہے اور عام ہے جو اکثر انفرادی اور شخصی طور پر یا شخصی حد تک ظاہر ہوتی رہتی ہے یہ سب قبول بھی کرتے ہیں ۔ لوگ عام طور پر ایک دوسرے سے حسد جلن کرتے ہیں تاہم یہ مانا جاتا ہے کہ مردوں سے کہیں زیادہ خواتین میں حسد کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے ۔یہ عام ایقان ہیکہ اگر کوئی ترقی کرتا ہے تو اس کے اپنے رشتہ دار اور پڑوسی جلن حسد کرنے لگتے ہیں اور جب جلن حسد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو پھرجادو ٹونا کے ساتھ ساتھ توہم پرستی زور پکڑنے لگتی ہے اور نظربد کے ساتھ ساتھ توہم پرستی کو اگرچہ انتہائی خطرہ سمجھا جاتا ہے اور حسد جلن آخر کار کالا جادو میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ حد تو یہ ہیکہ ہندوستان میں بری نظر ایک عام پریکٹس ہے اور ایسا لگتا ہے کہ معاشرہ عقیدہ کے اس نظام سے فرار اختیار نہیں کرسکتا ۔
بری نظر کو درشتی یا نارا درشتی کہا جاتا ہے اور ہندوستان میں نظربد یا بری نظر کے تعلق سے ہر مذہب کے ماننے والوں میں ایک عقیدہ پایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ آپ دیکھیں گے کہ نئے تعمیر ہونے والے مکانات پر نظر توڑ کیلئے عجیب و غریب اور ڈراونی تصاویر لگائی جاتی ہیں ۔ ہری مرچ ، بھلاویں وغیرہ لٹکائے جاتے ہیں ، بعض گھروں کے دروازوں پر بڑا سا میٹھا کدو بھی نظر آتا ہے ۔ دروازوں پر لوگ کپڑے میںلپیٹ کر ناریل بھی لٹکائے رکھتے ہیں ، غرض اس سے سیاستداں بھی محفوظ نہیں ہے ، ان میں بھی عام لوگوں کی طرح بہت زیادہ توہم پرستی پائی جاتی ہے حدو تو یہ ہیکہ اعلیٰ ذات کے تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی توہم پرستی کا مرض بہت زیادہ پایا جاتا ہے ۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے اور سنگھ پریوار کا سوال ہے وہ ہمیشہ معقولیت پسندوں کے خلاف رہتے ہیں اور سائنسی بنیاد پر مبنی عقائد کی مخالفت کرتے ہیں ۔ بی جے پی خود کو ہمیشہ صحیح اور دوسروں کو غلط سمجھتی ہے ۔ اب تو سیاست کو مذہب سے اس قدر زیادہ جوڑ دیا گیا ہے کہ سیاستداں اس سے بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو سیاستداں دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک نفرت بانٹتے ہیں دوسرے ایسے ہیں جو عوام کو مل جلکر کام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں ہٹلر اور نیلسن منڈیلا کی مثال ہمارے پاس موجود ہے ۔ ہندوستان میں گاندھی جی نے چھوت چھات کے خلاف آواز اٹھائی اور مذہبی ہم آہنگی کا درس دیا اور انہوں نے امن و اتحاد کا پیام ایسے وقت دیا جبکہ دو مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک د وسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے تھے۔ بہرحال بی جے پی سیاست سے مذہب کو جوڑکر اور قوم پرستی کا نعرہ لگاتے ہوئے اس سے بھرپور فائدہ اٹھارہی ہے ۔