ہندو قوم پرستی، ہندو راشٹر ہندوتوا فورس کا مقصد

   

رام پنیانی
دستور ہند کے مطابق ہندوستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہے لیکن ہندو قوم پرستوں نے ریاست کی نوعیت اور شہریت پر بڑے ہی طاقتور انداز میں اثر انداز ہونے کا آغاز کیا ہے۔ ویسے بھی سارا ہندوستان جانتا ہے کہ ہندوستانی قوم پرستی جدوجہد آزادی کی تحریک کے دوران فروغ پائی۔ ہندو قوم پرستی اور مسلم قوم پرستی اس وقت ہندوستانی قوم پرستی کے مقابل آئی۔ اگر دیکھا جائے تو ہندو قوم پرستی اور مسلم قوم پرستی کا آغاز نوآبادیاتی دور سے شروع ہوا ہے۔
نوآبادیاتی دور کے دوران تحریک آزادی ہندوستانی قوم پرستی کے تصور اور اقدار کو مستحکم کررہی تھی تب دیسی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں کے طبقہ اور اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والوں نے خود کو جدوجہد آزادی سے دور رکھا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ ہندو قوم پرستی کے تصور یا نظریہ پر عمل ہی کے ذریعہ وہ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہندو قوم پرستی دراصل ایک سیاست ہے اور ایک ایسا زمرہ ہے جس کے مخصوص معنی پائے جاتے ہیں اور یہ حقیقت میں آر ایس ایس، بی جے پی کا ایجنڈہ ہے اسی طرح مسلم قوم پرستی کی جڑیں بھی بہت گہرائی تک پائی جاتی تھیں۔

ہندو قوم پرستی : تاریخی جڑیں
نوآبادیاتی دور کے دوران ابھرتے ہوئے صنعت کاروں، تاجرین، ورکروں اور تعلیم یافتہ طبقات متحد ہوئے اور مختلف تنظیمیں قائم کیں۔ مدراس میں مہاجن سبھا، پونے میں سرواجانک سبھا، ممبئی میں ممبئی اسوسی ایشن وغیرہ۔ ان تمام تنظیموں نے یہ محسوس کیا کہ ملک میں ایک بہت بڑی سیاسی تنظیم کی ضرورت ہے چنانچہ ان تنظیموں کی کوششوں کے نتیجہ میں 1885 کے دوران انڈین نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں آیا۔ اسی طرح معاشرہ کے ایسے طبقات جن کی اہمیت گرتی جارہی تھی، مسلم اور ہندو، زمیندار، راجا رجواڑوں اور نوابوں نے بھی متحد ہونے کا فیصلہ کیا تاکہ کانگریس کی مشمولیاتی پالیسیوں کی مخالفت کی جاسکے۔ اس وقت تک کانگریس تحریک آزادی کے اقدار کی ایک بہت بڑی تنظیم میں تبدیل ہوچکی تھی اور پھر ان طبقات نے بدلتے سماجی رجحانات کے باعث خود کے لئے خطرات محسوس کئے۔ اپنی سماجی محرومیوں کو چھپانے کے لئے ان لوگوں نے ایسے ظاہر کیا جیسے ان کا مذہب خطرہ میں ہو۔ یہ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ کانگریس نوآبادیاتی آقاؤں کے خلاف آواز اٹھائے۔ ان حالات میں مختلف سماجی گروپوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور مطالبات زور پکڑنے لگے۔ کانگریس نے اس طرح کے رجحانات کے باوجود سماج کے بیشتر حصہ کو تحریک آزادی سے وابستہ کرلیا اور ایک قومی تحریک شروع ہوگئی اور کانگریس نے اس ملک کو ایک فروغ پاتی قوم کی حیثیت سے دیکھا، جبکہ راجا رجواڑے، زمین دار، انگریزوں کے ساتھ اور ان کے وفاداروں کی حیثیت سے ٹھہرے رہے۔ حد تو یہ ہے کہ 1885 میں کانگریس کا قیام عمل میں آیا اور دوسری طرف ہندو اور مسلم زمیندار عناصر نے متحد ہوکر 1888 میں یونائیٹیڈ انڈیا پیٹروٹیک اسوسی ایشن قائم کی۔ اس سلسلہ میں نواب آف ڈھاکہ اور کاشی کے راجا نے پہل کی اور ایک ایسا وقت آیا جب انگریزوں نے اس اسوسی ایشن میں شامل ہندووں اور مسلمانوں میں بھی اختلافات پیدا کردیئے۔ نتیجہ میں 1906 میں ایک گروپ نے مذکورہ انجمن سے الگ ہوکر مسلم لیگ قائم کرلی اور اس کے متبادل ہندوؤں نے پہلے 1909 میں پنجاب جیسے علاقہ میں ہندو سبھا قائم کی اور پھر 1915 میں ہندو مہاسبھا کا قیام عمل میں لایا۔ اس طرح فرقہ پرستی پر مبنی ان تنظیموں نے مسلم قوم پرستی اور ہندو قوم پرستی کا نعرہ بلند کیا۔ ہندو قوم پرستوں نے ہندوتوا کے سیاسی آئیڈیالوجی یا نتیجہ کو فروغ دیا اور خاص طور پر اس سلسلہ میں ساورکر کا نام لیا جاسکتا ہے جس نے 1923 میں اپنی کتاب ہندوتوا یا ہندو کون ہے؟ کے ذریعہ اس نظریہ کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ اس نے اپنی کتاب میں کہا کہ ہندو ازم ایک مذہب ہے جبکہ ہندوتوا آریائی نسل ارض ہندوستان اور اعلیٰ برہمنی تہذیب کی سیاسی بنیاد ہے۔ یہ صورتحال انگریزوں کے لئے قابل رشک بلکہ خوشی کا باعث تھی کیونکہ انگریز اچھی طرح جانتے تھے کہ اس طرح کے گروپس منظر عام پر آتے ہیں تو پھر ابھرتی قومی تحریک کمزور ہو جائے گی۔ ایک طرف انگریزوں نے بڑی خاموشی سے مسلم لیگ کی مدد کی اور اس کے متبادل انگریزوں نے ہندو مہاسبھا ۔ آر ایس ایس کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا۔

ہندو قوم پرستی : آر ایس ایس
ہندوتوا کے نظریہ سے ایک نئی جلا پاتے ہوئے آر ایس ایس کا 1985 میں قیام عمل میں آیا جس کی راہ ہندو قوم پرستی تھی اور جس کا مقصد ہندو ملک تھا، جبکہ بھگت سنگھ، ڈاکٹر بی آر امبیڈکر، مہاتما گاندھی اور مولانا ابولکلام آزاد اور کئی دوسرے ہندوستانی قوم پرستی کے دلدادہ تھے اور ان لوگوں نے یہ قوم پرستی، آزادی، مساوات، اخوت اور انصاف کے اصولوں کی بنیاد پر تعمیر کی تھی۔ مسلم لیگ کی آئیڈیا لوجی چنندہ تھی جو بعض ایسے مسلم روایات سے حاصل کی گئی جو نسل، ذات اور زمیندارانہ معاشرہ کی صنفی مورثیت پر زور دیتی تھی جبکہ ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس منوسمرتی جیسی ضخیم کتاب اپنے پاس رکھتے تھے اور منوسمرتی کے مطابق ہی ہندو مذہب میں ذات پات اور صنف کی مورثیت کی درجہ بندی میں یقین رکھتے تھے اور اسی کی وکالت کرتے تھے اور آج بھی یہی سلسلہ جاری ہے۔ جہاں تک مسلم اور ہندو فرقہ پرستوں کا سوال ہے وہ کبھی بھی تحریک آزادی کا حصہ نہیں تھے کیونکہ تحریک آزادی ایک مشمولیاتی تحریک تھی جس کا مقصد سیکولر و جمہوری اقدار کو مضبوط و مستحکم بنانا تھا۔ مسلم اور ہندو فرقہ پرست، بادشاہوں اور ماضی کے راجاوں کی شان و شوکت سے باہر نکلے تھے اور ان لوگوں نے خود کو انگریزوں کے خلاف جدوجہد سے دور رکھا تھا۔ گاندھی جی انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں عوام کو بڑے پیمانے پر متوجہ کرنے میں کامیابی حاصل کی نتیجہ میں آئین پرست جیسے جناح مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کے روایت پسند قومی تحریک سے مزید دور ہوئے اور 1920 کے بعد خود کو مستحکم کیا۔ 1920 کے دہے سے ہندو قوم پرستی کی رفتار واضح ہوگئی۔ ان لوگوں کے انگریزوں کے ساتھ رہنے کا مقصد مسلم قوم پرستوں اور ساتھ ہی جدوجہد آزادی کی مخالفت کرنا تھا۔ اسی طرح مسلم لیگ بھی کانگریس کو ایک ہندو پارٹی سمجھتی تھی۔ ایک ایسا بھی دور آیا جب ملک کو آزادی ملی اور پھر ملک کی المناک تقسیم عمل میں آئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ ہی پاکستان چلے گئی اور اس کے کچھ اثرات باقی رہ گئے۔ اسی طرح ہندو قوم پرستوں نے ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کی شکل میں بتدریج خود کو فروغ دینا شروع کیا جس کا آغاز مہاتما گاندھی کے قتل سے ہوا گاندھییقینا ملک کے ہندوؤں میں سب سے بہتر تھے۔

آر ایس ایس : ایک مختصر تعارف
آر ایس ایس کا قیام ناگپور میں 1925 میں عمل میں آیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ 1920 میں مہاتما گاندھی نے تحریک عدم تعاون شروع کی اور یہ تحریک، تحریک آزادی کا ایک حصہ تھی۔ اس کے نتیجہ میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں اور زمینداروں میں بے چینی پھیلی، اس بے چینی کو دور کرنے کے لئے آر ایس ایس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ تحریک عدم تعاون میں متوسط لوگوں کو جدوجہد آزادی میں شامل کروایاگیا عوام کے تحریک آزادی میں شامل ہونے سے معاشرہ کے اعلیٰ طبقہ کو پریشانی ہوگئی۔ اسی وقت ایک طرف مہاراشٹرا میں غیر برہمن تحریک، برہمن ۔ زمینداروں کی سماجی تعلقات کو اور دوسری طرف دلت ۔ ورکروں کے تعلقات کو ہلا رہی تھی، جبکہ آر ایس ایس کے بانیان ہٹلر کی قوم پرستی کے نظریہ سے متاثر تھے۔ آر ایس ایس ہندوستانی قوم پرستی کے تصور کے تئیں اچھے خیالات نہیں رکھتی تھی کیونکہ وہ نظریہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کا نظریہ تھا اور جس کی قیادت گاندھی جی نے کی تھی۔ پہلے ہندو سبھا قائم ہوئی اور پھر ہندو سبھا سے آر ایس ایس وجود میں آئی۔ ہندو سبھا کے بارے میں ہم نے آپ کو بتایا کہ اس کی تشکیل سابق ہندو راجاؤں نے کی تھی اور بعد میں اس تنظیم کی قیادت متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایک دانشور ونائک دامودر ساورکر کے ہاتھوں میں آگئی اور اس نے ہندوتوا کی آئیڈیا لوجی کا اعلان کیا۔ ہندوتوا، ہندوؤں کی بالادستی کا تصور پیش کیا جو برہمنی اقدار پر مبنی قوم پرستی کا ایک تصور ہے اس میں ذات پات، صنف، و مورثیت سے متعلق برہمنی اقدار پر مبنی ہوتے ہیں۔ آر ایس ایس کے بانیوں نے جو نظریہ پیش کیا وہ دراصل ہندوتوا اور ہندو راشٹر (ہندو ملک) کا نظریہ تھا اور یہ ان کی بنیادی آئیڈیالوجی اور سیاست ہے۔ آر ایس ایس نے اپنے والینٹرس کو ہتھیار چلانے کی تربیت فراہم کرتے ہوئے ایک طرح سے اپنا آغاز کیا اور تاریخ رقم کی۔ ایسی تاریخ جو فرقہ پرستی پر مبنی تھی اور جس کا سچائی سے کچھ تعلق نہیں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہندوستان ہمیشہ ایک ہندو ملک رہا ہے اور مسلمان حملہ آور کی حیثیت سے یہاں آئے۔ مسلمان اور عیسائی بیرونی باشندے ہیں جبکہ گاندھی جی اور جواہر لال نہرو نے اس تصور کو فروغ دیا کہ ہندوستان تمام مذاہب کے ماننے والوں کی سرزمین ہے۔ آر ایس ایس نے دونوں کے نظریہ کو غلط قرار دیا اور کہا کہ آج ایک ہندو ملک کی تعمیر اور مسلم قوم کو کمزور کرنے کی ضرورت ہے چنانچہ آر ایس ایس نے خود کو راست انتخابی سیاست سے دور رکھا اور والنٹرس کا ایک سیٹ قائم کیا جنہیں سویم سیوک کہا جاتا ہے اور ان سیوکوں کو ہندوتوا کے نظریہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آر ایس ایس نے خود کو جدوجہد آزادی سے دور رکھا کیونکہ اس کے خیال میں یہ تحریک سیکولر ازم اور جمہوری اقدار پر مبنی تھی جبکہ اس کا مقصد ہندو ملک قائم کرنا ہے۔