’ہندوستان جتنا مودی اور بھگوت کا ہے اتنا ہی میرا بھی ہے‘: محمود مدنی

,

   

مسلمان باہر سے نہیں آئے ‘سناتن دھرم سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ، جمعیت علماء ہند کے اجلاس سے خطاب
نئی دہلی: جمعیت علماء ہند کا 34 واں اجلاس دہلی کے رام لیلا میدان میں شروع ہو گیا ہے جس کی صدارت جمعیت کے سربراہ مولانا محمود مدنی کر رہے ہیں۔ جمعہ کو جمعیت علماء ہند کے سربراہ محمود مدنی نے ہندوستانی مسلمانوں کا مسئلہ اٹھایا۔ اس دوران انہوں نے کہا کہ ہندوستان اتنا ہی محمود کا ہے جتنا وزیر اعظم نریندر مودی اور آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان میں اسلامو فوبیا کے کیسز بڑھ رہے ہیں جو تشویش ناک ہیں۔جمعیت علماء ہند کے سربراہ نے کہا کہ ہندوستان مسلمانوں کا پہلا مادر وطن ہے۔ یہ کہنا کہ اسلام ایک مذہب ہے جو باہر سے آیا ہے بے بنیاد اور غلط ہے۔ اسلام تمام مذاہب میں سب سے قدیم مذہب ہے اور ہندی بولنے والے مسلمانوں کیلئے ہندوستان بہترین ملک ہے۔ پروگرام میں مدنی نے اسلامو فوبیا اور نفرت انگیز تقاریر میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیزی کے واقعات کے علاوہ حالیہ دنوں میں ہمارے ملک میں اسلامو فوبیا میں اضافہ تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے اقلیتوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینے والوں کے خلاف سزا کا مطالبہ کیا۔خیال رہے کہ جمعیت علماء کے اجلاس عام کے دوران یکساں سیول کوڈ سمیت کئی مسائل پر بات ہوگی۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد، نفرت انگیز تقریر، سماج میں ان کی نمائندگی کا معاملہ بھی اٹھایا جائے گا۔ سہ روزہ یہ اجلاس عام اتوار کے روز اختتام پذیر ہوگا اور اجلاس میں کئی قرار دادیں منظور کئے جانے کا امکان ہے۔راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے کہا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس سے کوئی مذہبی دشمنی نہیں ہے، صرف ایسے معاملات ہیں جو غلط فہمیوں کو بڑھاتے ہیں۔ دہلی کے رام لیلا میدان میں جاری جمعیت علماء ہند کے تین روزہ کنونشن کے دوسرے دن صدر مولانا محمود مدنی نے کہا کہ ہم آر ایس ایس کے سامنے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ آئیے آگے بڑھیں اور گلے لگائیں۔ سناتن دھرم کی ترقی سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اسلام کی ترقی سے بھی کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔مولانا محمود مدنی نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ملک میں رہنے والے دوسرے طبقات کی باتوں سے اختلاف ضرور رکھ سکتے ہیں لیکن ہم ان کے خلاف نہیں ہیں۔ ہمارے ملک میں بہت سی زبانیں ہیں، مختلف رہن سہن، مختلف انداز فکر کے باوجود ملک متحد ہے۔ مدنی نے کہا کہ اس خیال کو ترک کر دینا چاہیے کہ ہم پاکستان چلے جاتے۔ انہوں نے کہا کہ جن کا ان سے تعلق تھا یعنی مغلوں سے وہ 1947 میں چلے گئے۔ یہ ہمارا ملک ہے۔ نہ ہم آپ سے بلانے پر آئے ہیں اور نہ کہنے سے جائیں گے۔جمعیت کے اجلاس کے دوسرے دن پسماندہ مسلمانوں، مدارس اور یکساں سول کوڈ سے متعلق تجاویز بھی پیش کی گئیں۔ اس دوران پسماندہ مسلمانوں کے تعلق سے منظور کردہ قرارداد میں جمعیت نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ حکومت پسماندہ مسلمانوں کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن دفعہ 341 کو اب ختم کر دینا چاہیے، تاکہ پسماندہ مسلمانوں کو ریزرویشن کا فائدہ مل سکے، جسے مذہب کی بنیاد پر ہٹایا گیا تھا۔