ہندوستان خطرناک راہ پر

   

پی چدمبرم

تبدیلی قانونِ فطرت ہے۔ ہندوستان آج 12 ویں اور 16 ویں صدی کا ہندوستان نہیں ہے اور یہ 17 فیصد خواندگی والا ہندوستان نہیں ہے ہندوستان نے 1945 جب انگریزوں کے تسلط سے آزادی پائی تھی اس وقت ملک میں خواندگی کی شرح صرف 17 فیصد تھی۔
ہندوستان میں سب سے بڑی تبدیلی اس وقت دیکھی گئی جب 1991 میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے وزیر فینانس کی حیثیت سے معاشی اصلاحات متعارف کروائے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالات میں کہیں بھی کبھی بھی اور کسی بھی وقت تبدیلی آتی ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے 1991 میں جو کچھ بھی کیا اس وقت اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انہوں نے لائسنسوں اور پرمٹس کے لئے درکار تقریباً تمام شرائط کو منسوخ کردیا اور بحیثیت وزیر کامرس میں نے نئی بیرونی تجارتی پالیسی کا اعلان کیا جو ہندوستان کے بے مثال اعلان سے شروع ہوئی کہ درآمدات و برآمدات کو تمام شرائط سے پاک کیا جائے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی قدم اٹھایا گیا کہ درآمدات و برآمدات پر عائد ہونے والے محاصل اور قیمتوں میں بھی دو طرفہ کمی آئے۔ سہ پالیسی اعلانات نے ہمارے ملک کو ایک نئی اور ناقابل تسخیر اقتصادی سمت کی جانب گامزن کردیا۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ چند تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں اور ان تبدیلیوں کو اسی وقت محسوس کیا گیا یا نوٹ کیا گیا جب یہ کافی اہمیت اختیار کرگئی۔ اس سلسلہ میں ہم کئی مثالیں پیش کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کیا کوئی اس تاریخ کی نشاندہی کرسکتا ہے جب ایس ٹی ڈی؍ آئی ایس ڈی؍ پی سی او بورڈس غائب ہوگئے یا اس تاریخ کی نشاندہی کرسکتا ہے جب سننے والوں نے خبریں سننے کے لئے آل انڈیا ریڈیو یا آکاش وانی سننا روک دیا، یا کوئی اس تاریخ کے بارے میں بتا سکتا ہے جب کالج جانے والی ہر لڑکی نے یہاں تک کہ قدامت پسند جنوبی ہند میں نصف ساری زیب تن کرنا چھوڑ دیا اور جینس یا شلوار قمیض زیب تن کرنے کا آغاز کردیا۔
فخر میں اضافہ
ہر تبدیلی نے ایک نئے معمول کے طور پر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ بعض نئے معمول شہریوں کو اوپر اٹھانے کے لئے ہیں، مثال کے طور پر جو سرفہرست کمپنیز ہیں ان میں 17 فیصد بورڈ کے اہم عہدوں پر خواتین فائز ہیں۔ جب ایک ہندوستانی کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ رقم کسی کے اکاؤنٹ میں منتقل کرواتا ہے اور وہ بھی روپے کی شکل میں تو وہ ہر بیرونی ملک میں قابل قبول ہے جب کوئی ٹرنکال بک کئے بنا دنیا میں کہیں پر بھی کسی سے بھی ڈائل کرکے بات کرتا ہے اور جب کوئی ایک کار خرید سکتا ہے، ٹرک یا دو پہیوں کی گاڑی بھی ماہانہ اقساط پر خرید سکتا ہے، جب کوئی بھی ادویات یا کپڑے اور غذائی اشیاء کا آرڈر آن لائن دے سکتا ہے اور یہ تمام چیزیں اس کی دہلیز پر پہنچائی جاتی ہیں، جب کوئی طبی انشورنس یا بیمہ کرواتا ہے اور اسپتال میں رہنے یا سرجری کروانے پر جو مصارف آئے ہیں اسے بیمہ سے حاصل کرتا ہے جب دیہی ہندوستان کے کھلاڑی ہندوستانی کرکٹ میں جگہ پا سکتے ہیں اور ہندوستانی نژاد ایگزیکٹیوز گوگل، مائیکرو سافٹ، آئی بی ایم، اڈوپ، نوکیا، کاگنی زنٹ، ماسٹر کارڈس، زیراکس اور ریکٹ بینکائزر، کی سربراہی کرسکتے ہیں تو ہمارا سر فخر سے اونچا ہو جاتا ہے اور ہمارا فخر بڑھ جاتا ہے۔ لیکن بعض جو نئے معمولات ہیں وہ کسی کو بھی بے چین کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں اب بھی اس بات کا مکمل طور پر قائل نہیں ہوں کہ عدالتوں کو ورچیول کورٹس (ایسی عدالتیں جہاں کی کارروائی آن لائن یا ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ انجام دی جائیں) کی طرح کام کرنا چاہئے اور تمام مقدمات کی سماعت ویڈیو کے ذریعہ کرنی چاہئے۔ عام درخواستیں اور چھوٹے مقدمات کی ورچیول کورٹس میں سماعت کی جاسکتی ہے لیکن جب قانون یا پیچیدہ حقائق کے سوالات پیدا ہوتے ہیں تو اس پر بحث و مباحث اور ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں تک جسمانی سماعت کا سوال ہے اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ میں یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جج کے ساتھ وکیل کا نظروں سے نظریں ملانا بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر عدالت کئی رکنی بنچ پر مشتمل ہوتی ہے تو ایسے میں ججس کی جو حرکات و سکنات ہوتی ہیں وہ وکیل یا کونسل کے لئے بہت ہی قابل قدر رہنمائی کا کام کرتی ہیں۔
تلخ حقائق
لیکن چند دیگر نئے معمولات ایسے بھی ہیں جن سے کپکپی طاری ہو جاتی ہے، بے چینی، خوف یا ذہنی دباؤ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان میں یہ نیا معمول بڑی تیزی سے پنپ رہا ہے اور اس نئے معمول یا خطرہ کی سب سے اچھی مثال یہ ہے کہ وزیر اعظم سربراہ حکومت کی حیثیت سے اپنی میعاد مکمل کریں گے اور اس دوران وہ ایک پریس کانفرنس سے بھی خطاب نہیں کریں گے۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں منہ کھولنے، کچھ بولنے کے حق یا کل جماعتی اجلاس پر کنٹرول کیا جائے گا (یا اس کی اجازت ہی نہیں دی جائے گی) اور یہ کنٹرول صرف ایک بٹن پر انگلی دباتے ہوئے کیا جائے گا یا پھر مائیکرو فون کو خاموش کرکے انجام دیا جائے گا۔ ایک سینئر بیوروکریٹ یا اعلیٰ عہدہ دار برسر عام ’’بہت ہی زیادہ جمہوریت‘‘ کی بات کرے گا اور اسے اپنی اس بات پر کوئی حیرت بھی نہیں ہوگی۔ حد تو یہ ہے کہ اسے کوئی نصیحت یا ٹوکنے والا بھی نہیں ہوگا۔
شادیوں سے متعلق خصوصی قانون جو بین مذہبی شادیوں کی اجازت دیتا ہے اسے چوری چپکے ایک ایسے نئے قانون سے تبدیل کیا جائے گا جس کے تحت بین مذہبی شادی کرنے والے جوڑے میں سے مرد کو سزا دی جائے گی۔ اسی طرح حکومت جو منتخبہ قانون سازوں کی اکثریت سے بنائی گئی ہے وہ اکثریتی حکمرانی میں تبدیل ہو جائے گی۔ ذرائع ابلاغ (یا اس میں سے اکثر) پر پوری طرح کنٹرول حاصل کیا جائے گا اور اسے حکمراں جماعت کا مطیع و فرمانبردار بنایا جائے گا اور جن اداروں کو نگرانی یا واچ ڈاگس کی حیثیت سے قائم کیا گیا تھا انہیں ان کی جائیدادیں مخلوعہ رکھتے ہوئے چھوڑ دیا جائے گا یا پھر اپنے وفادار خدمت گذاروں کا ان عہدوں پر تقرر عمل میں آئے گا۔ جہاں تک انصاف تک رسائی کا سوال ہے چند لوگ دوسروں سے کئی زیادہ برابر ہیں۔ دوسری طرف انتخابات میں جو صنعتی گھرانے اور شخصیتیں عطیات دیتی ہیں ان پر کنٹرول کیا جائے گا اور حکمراں جماعت کے حق میں یا اس کی تائید میں وہ سرگرم ہو جائیں گے غیر سرکاری اور غیر منفعت بخش تنظیموں کو دبایا جائے گا یا پھر ملک سے نکال باہر کیا جائے گا۔ سیاسی مخالفین، سماجی جہد کاروں، ادیبوں اور شعراء کو جیلوں میں بند کرنے یا ان کے خلاف مقدمات دائر کرنے کے لئے تحقیقاتی ایجنسیوں اور انسداد بغاوت و غداری کے قوانین کا استعمال کیا جائے گا اور دولت مندوں کو ایک طرف کردیا جائے گا اور ان کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جائے گی بلکہ بڑی سرگرمی کے ساتھ تائید و حمایت بھی کی جائے گی۔
کیا آپ فخر محسوس کرتے ہیں؟
مذکورہ سطور میں تمام حقائق و مثالیں پڑھنے کے بعد ہوسکتا ہے کہ کوئی یہ سمجھے کہ یہ جانبدارانہ ہے، متعصبانہ ہے لیکن اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اور ضمیر کو بیدار کرتے ہوئے اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کریں کہ آیا میرا ملک جس نئی راہ پر نئے معمول کی جانب رواں دواں ہے کیا وہ میرے لئے باعث فخر ہے؟ مثال کے طور پر خود ساختہ لو جہاد کے خلاف حکومت اترپردیش کے آرڈیننس کو لیجئے۔ یہ آرڈیننس 28 نومبر 2020 کو لایا گیا اور آرڈیننس کے متعارف کروانے کے اندرون 11 یوم پانچ مقدمات درج کئے گئے۔ ایک مقدمہ میں لڑکی کے خاندان والوں نے پولیس کو واضح طور پر بتایا دونوں خاندانوں نے اس معاملہ کو طے کرلیا ہے۔ لڑکی نے ایک اور لڑکے سے شادی کرلی ہے اور خاندان میں کوئی شکایت بھی نہیں کی لیکن اس کے باوجود لڑکے کے خلاف ایف آئی آر درج کیا گیا۔ ایک اور کیس میں ایف آئی آر اور ناقابل ضمانت وارنٹ کے بعد پولیس نے یہ دھمکی دی ہے کہ اگر لڑکا پولیس کے سمن کا جواب نہیں دیتا تو پھر لڑکے کے خاندان کی جائیداد ضبط کرلی جائے گی۔ اس سے کوئی بھی اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ اترپردیش میں سب سے بڑا جرم نوجوان لڑکے لڑکیوں کا محبت کرنا اور پھر شادی کرنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس آرڈیننس کے بعد سے چیف منسٹر اور پولیس کی تمام تر توجہ لو جہاد پر مرکوز ہو گئی ہے، حالانکہ اترپردیش میں قتل و غارت گیری، عصمت ریزی، قاتلانہ حملوں یا سرقہ کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس طرح کے جرائم ایسا لگتا ہے کہ اترپردیش میں معمول کے مطابق ہیں۔ آج جو معمول کے حالات یوپی میں سمجھے جارہے ہیں وہی نئے خطرناک حالات ہندوستان میں بھی بن سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ بہت بھیانک ہے۔