محمد اسد علی ، ایڈوکیٹ
حال ہی میں ایک کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا نے بتایا کہ خصوصی عدالت کے ججس بہت زیادہ اپنے تحفظ کی فکر میں رہتے ہیں اور سنگین جرائم کے اہم مسائل پر ضمانتوں کو منظور نہیں کررہے ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ ضمانت کی منظوری میں تاخیر سے اُن لوگوں کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے جو من مانی گرفتاریوں کا سامنا کررہے ہیں ۔ نظام فوجداری انصاف رسانی میں اِن بیانات سے جو اہم مسائل اُجاگر ہوتے ہیں جن میں من مانی گرفتاریاں اورزیادہ تر ضمانتوں کی منظوری سے انکار شامل ہیں یہ دونوں مسائل آزادی کی کھلی توہین ہے ۔ نیشنل کرائم بیورو کے تازہ ترین ریکارڈ سے اِس بات کا پتہ چلتا ھیکہ 1860 ء کے تعزیرات ہند قانون جن میں 2022 ء بھی شامل ہیں اسکے تحت 32 لاکھ افراد ، اور خصوصی قوانین کے تحت جرائم کی پاداش میں 21.6 لاکھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اسکے برعکس ضابطہ فوجداری 1973 ء کی دفعات اور دیگر ریاستی دفعات کے تحت 80 لاکھ ا فراد کو گرفتار کیا گیا اور بتایا گیا ھیکہ حقیقت میں جرائم کا ارتکاب ہوا ہے اسکے مقابلہ میں گرفتاریاں 50% سے زائد رہی ہے ان میں سے80% افراد کو اندرون 24 گھنٹے رہا کردیا گیاعلاوہ ازیں بہت سے لوگوں کو مزید مدت کے لئے پولیس یا عدالتی تحویل میں رکھا گیااہم بات یہ ھیکہ ان گرفتاریوں کی اکثریت اور اُنکے قانونی جواز کی جانچ عدالتیں نہیں کرتی ہیں جسکی وجہ سے بیشتر گرفتاریوں کے نتیجے میں من مانی حراستوں کے کلچر کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور وہ عدالتی جانچ سے بچ جاتے ہیں۔ ہندوستانی جیلوں کے اعداد و شمار سے بھی پتہ چلتا ھیکہ اسطرح سے یہ گرفتاریاں قانون کی کاروائی سے قبل اور زیر دوران حراست کے نتیجہ میں شخصی آزادی متاثر ہوتی ہے 2022ء کے اختتام پر ہندوستانی جیلوں میں 4.3 لاکھ زیر دریافت قیدیوں کے مقدمات جاری تھے جو قیدیوں کی مجموعی تعداد کا 76% ہوتا ہے ۔ دریں اثناء اسی مدت کے دوران جیلوں سے15 لاکھ زیر دریافت قیدیوں کو رہا کیا گیا جن میں 95% کو ضمانت پر رہا کیا گیا تھا جس سے ظاہر ہوتا ھیکہ ضمانتی نظام مناسب حد تک کام کررہا ہے بتایا گیا ھیکہ 2022ء کے اختتام تک ہندوستانی جیلوں میں زیر دریافت 68% قیدیوں کو کم از کم 3 ماہ تک حراست میں رکھا گیاتھا جن میں% 11.446 زیر دریافت قیدیوں کی حیثیت سے جیلوں میں (5) سال سے زائد گذارے تھے۔ قانونی کاروائی سے قبل اور زیر حراست کے واقعات سے ایک منظم ناکامی کا اظہار ہوتا ہے ۔ جو شخص آزادی کی بنیاد کے برخلاف ہے ۔ خصوصی عدالتوں کی جانب سے فوری طور پر ضمانت کی منظوری سے عدم رضامندی تشویشناک بات ہوتی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ھیکہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں کثرت سے بے جواز اور من مانی گرفتاریاں ہوتی ہے ، جسکے نتیجہ میں شخصی آزادی اور جمہوریت کو نقصان پہونچتا ہے جبکہ بعض واقعات میں پولیس کا رویہ بھی لاپر واہی پر مبنی ہوتا ہے ۔ جبکہ ہزاروں افراد کو کئی برسوں سے جیل میں رکھا گیا ہے جسکا کوئی پرسان حال نہیں ہے اکثر مقدمات میں عدالتی فیصلوں میں برسوںلگ جاتے ہیں ، حال یہ ہوتا ھیکہ بعض اوقات مقدمہ فریق ثانی اِس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں جسکی وجہ سے نظام ِ انصاف رسانی میں غیر معمولی تاخیر اور انصاف کو نظر انداز کردیا جاتا ہے عوام میں اتنا شعور نہیں کہ نام نہاد قائدین کے کردار کو جانچے ۔ آج ہندوستان کا ہر شہری بالخصوص غریب عوام دانے دانے کے محتاج ہیں ان میں اکثر پڑھے لکھے نوجوان بے روزگاری کا شکار ہے نوکریوں میں حتٰی کہ سرکاری ہو یا خانگی اثر ورسوخ کا بازار گرم دکھائی دیتا ہے یا پھر رشوت دینی پڑتی ہے ۔ ملک میں مسلمانوں کو حقیقی قیادت میسر نہیں اور بعض قیدی جو جیلوں میں سزا کاٹ رہے ہیں یا کاٹ چکے ہیں یابا عزت بری ہوچکے ہیں انکے بارے میں کوئی فکر نہیں کہ انکی قیمتی زندگی جیل میں کسطرح گذرتی ہیں خاص طور پر ملک میں مسیحا ئے قوم کہلانے والے صرف اپنی پُر آسائش زندگی میں کھوئے رہتے ہیں اور اپنی تجوریاں بھرنا جانتے ہیں حقیقی معنوں میں ایسے لوگ قائد کہلانے کے مستحق نہیں ہیں ۔ دوسری اہم بات یہ ھیکہ سابق چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا ، ایس اے بوبڈے اور رنجن گو گوئی نے بھی تھا کہ ججس کو دیگر کئی گوشوں سے دباؤ ہوتا ہے یہ لوگ آزادانہ طور پر اپنے کام انجام نہیں دے سکتے اور عدلیہ کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ ججس اور عدلیہ کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ اسی وقت ممکن ہے جب عدلیہ کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیا جائے ۔ ملک میں جسکی لاٹھی اُسکی بھینس جیسا قانون چل رہا ہے ایک طرف بعض پولیس کا ظلم تو دوسری طرف بعض جانبداری فیصلوں سے عوام کااعتماد ختم ہورہا ہے اِس سلسلے میں حال ہی میں چیف جسٹس آف انڈیانے ہدایت کی ھیکہ جلد از جلد مقدمات کی یکسوئی کی جائے تاکہ غیر ضروری طور پر فریق مقدمہ کو تاخیر کا سامنا نہ ہو اور وہ پریشانیوں سے راحت حاصل کرسکے ڈاکٹر امبیڈکر نے جو آئین وضع کیا اگر اس پر پوری طرح عمل ہو تو نظام انصاف رسانی میں بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے اور عام شہری کی پریشانیوں میں کمی ہوسکتی ہے اور عدالتی نظام پر بھی عوام کو اعتماد حاصل ہوسکتا ہے ۔ انصاف رسانی میں تاخیر انصاف کی فراہمی سے انکار کے مماثل ہے جبکہ قانون سازوں کو خاص طور پر ان باتوں کو ملحوظ رکھنا چاہئے تاکہ عوام راحت کی سانس لیں اور عدالتوں کا وقار بھی بحال ہوسکے ۔ مزید تفصیلات کے لئے اِس نمبر9959672740 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے ۔