ہندوستان کو آبادی پر کنٹرول کی نہیں روزگار کی ضرورت

   

دیپانکر باسو
حالیہ ہفتوں کے دوران ایسا لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) قیادت کو ہندوستان میں آبادی کے سنگین مسئلہ نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ آسام کی تقلید کرتے ہوئے ریاست اترپردیش نے بھی آبادی پر قابو پانے کیلئے ایک بِل متعارف کروانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ بی جے پی کے قومی صدر سی ٹی روی نے اسی طرح کے پاپولیشن کنٹرول لا (آبادی پر قابو پانے سے متعلق قانون) ایک اور زیرقیادت ریاست کرناٹک میں متعارف کروانے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں خود بی جے پی ارکان پارلیمنٹ راکیش سنہا اور انیل اگروال نے پارلیمنٹ میں آبادی میں قابو پانے سے متعلق بلس پیش کرنے کیلئے نوٹسیں دے دی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان کو صرف آبادی کا ہی سنگین مسئلہ درپیش ہے؟ کیا ہندوستان کو حقیقت میں آبادی پر کنٹرول پالیسی کی ضرورت ہے؟ دونوں سوالات کا ایک ہی جواب ہے اور وہ جواب نفی میں ہے۔ موجودہ ہندوستان میں آبادی پر قابو پانے کی پالیسی کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی کوئی اسے منصفانہ قرار دے سکتا ہے، اس لئے کہ ہندوستان کی جو آبادی ہے، وہ متوازن ہے اور یہ کہنا کہ آبادی پر قابو پانے کی شدید ضرورت ہے بالکل غلط ہے۔ آج ہندوستان کو ضرورت ، آبادی پر کنٹرول کی نہیں بلکہ بے روزگاروں کو اچھی تنخواہوں کی حامل ملازمتوں کی ضرورت ہے۔ حکومتوں کو چاہئے کہ وہ بے روزگار آبادی کو روزگار فراہم کریں۔ ویسے بھی ہندوستان میں آبادی کی جو ہیئت ہے اس میں کافی تبدیلیاں آئی ہے۔ اقتصادی نمو کا ساری دنیا نے مشاہدہ کیا ہے، ایسے میں آبادی کے نمو میں بھی تبدیلی دیکھی گئی۔ معاشی مورخین اس تبدیلی کو آبادی کی تبدیلی قرار دیتے ہیں اور جہاں تک آبادی میں تبدیلی کا سوال ہے، یہ تین مرحلوں پر مبنی Pattern یا نمونہ پر مشتمل ہوتی ہے۔ پہلا مرحلہ تب ہوتا ہے جب مختلف ممالک غربت کا شکار ہوتے ہیں۔ ان غریب ملکوں میں شرح پیدائش اور شرح اموات دونوں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ وہاں زیادہ شرح پیدائش اور زیادہ شرح اموات ایک دوسرے کا توازن برقرار رکھتی ہیں۔ ایسے میں بحیثیت مجموعی آبادی کی شرح نمو کم ہوتی ہے۔ دوسرے مرحلے میں شرح پیدائش کی بہ نسبت شرح اموات میں بڑی تیزی سے کمی آتی ہے۔ اس کی وجہ حفظان صحت، ٹیکہ اندازی اور اینٹی بائیوٹک کے ذریعہ متعدی امراض پر قابو پانا ہے۔ اس لئے دوسرے مرحلے میں شرح پیدائش میں اضافہ ہوتا ہے۔ تیسرے اور آخری مرحلے میں شرح پیدائش، شرح اموات کی بہ نسبت تیزی سے گرتی ہے کیونکہ خاندان اپنے تولیدی Patterns تبدیل کرتے ہیں۔ اس کی وجوہات میں بڑھتی اقتصادی ترقی، نومولودوں میں شرح اموات کا کم ہونا، خواتین میں تعلیمی شرح میں اضافہ، خاندانی ساخت میں تبدیلی اور معمرین کی نگہداشت کے اداروں کے فروغ کے ساتھ ساتھ سماجی سلامتی بھی شامل ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو تیسرے اور قطعی مرحلہ میں شرح آبادی کم دیکھی جاتی ہے۔ آبادی میں اضافہ اور کمی کا راست تعلق، آبادی کی عمر کی ساخت سے ہوتا ہے اور معاشی نمو میں اس کا ہمیشہ اہم اثر دیکھا گیا ہے۔ جیسے جیسے معیشت ، آبادی کی تبدیلی کے مراحل سے گزرتی ہے تو پھر کام کرنے والی آبادی (15 تا 64 سال) اور کام نہ کرنے والی آبادی (0 تا 14 سال) اور (65 سال سے زائد عمر) کا تناسب پہلے گرتا ہے پھر اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ آبادی کی تبدیلی کے دوسرے مرحلے کے دوران شرح اموات میں کمی آتی ہے، لیکن شرح پیدائش بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے بچوں کی تعداد (0 تا 14 سال) اور بزرگوں کی تعداد (65 سال سے زائد عمر) کے لوگوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان ہی وجوہات کے باعث کام کرنے والے عمر کے گروپ کا تناسب ، کام نہ کرنے والے عمر کے گروپ کے تناسب سے کم ہوجاتا ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ 1950ء تا 1970ء شرح اموات، شرح پیدائش کی بہ نسبت بہت کم ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تین دہوں کے دوران آبادی میں اضافہ کا رجحان دیکھا گیا۔ یعنی 1950ء تا 1980ء، لیکن 1980ء کے بعد شرح پیدائش میں کمی آئی۔ اس طرح آبادی کے اوسط نمو کی شرح میں کمی دیکھی گئی۔ 1950ء تا 1955ء ہمارے ملک میں سالانہ آبادی کی اوسطاً شرح 1.71% رہی اور اس میں 1980ء تا 1985ء اضافہ ہوکر وہ 2.3% ہوگئی اور تب سے اب تک اس میں مسلسل کمی آتی جارہی ہے۔ 2015ء اور 2020ء میں یہ شرح نمو 1.04% ہوگئی۔ ان تمام جائیدادوں کے بعد مرکزی و ریاستی حکومتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ آبادی پر کنٹرول کے نام پر قوانین بنانے کے بجائے منظم و غیرمنظم شعبوں میں روزگار کی فراہمی کیلئے اقدامات کرے، قوانین بنائے، پچھلے دو دہوں کے دوران ہندوستان میں غیرمنظم شعبے میں روزگار یا ملازمتوں کے حصے میں بہ مشکل تبدیلی ہوئی ہے۔ 1999ء اور 2000ء میں غیرمنظم شعبہ میں ملازمتوں کی تعداد 91.2% تھی، لیکن 2017-18ء جس کا ڈیٹا ہمارے پاس ہے، اس میں بتایا گیا کہ غیرمنظم شعبہ کی ملازمتیں 90.7% رہی۔ ان تمام باتوں سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے، وہ آبادی کا نہیں بلکہ ایک بڑی تعداد میں اور معیاری ملازمتوں کی فراہمی ہے۔ ہندوستانی حکومتوں کو ایسی پالیسیاں بنانی چاہئے جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں ، نہ کہ بدنیتی پر مبنی آبادی پر کنٹرول کی پالیسی ۔ یہ پالیسی صرف اور صرف ایک مخصوص مذہب کو نشانہ بنانے کے لئے کی گئی ہے تاکہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کئے جاسکیں۔