وزیراعظم مودی کا جنرل اسمبلی سے خطاب، سوچھ بھارت ، آدھار ، ایوشمان بھارت کا حوالہ
نیویارک ۔ 27 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم نریندر مودی نے جمعہ کو کہا کہ ان کی حکومتکی طرف سے شروع کردہ مختلف اسکیمات میں ساری دنیا کو آنے والے ایک اچھے کل کیلئے ایک نئی امید دی ہے اور اس یقین کا اظہار کیا کہ ان پراجکٹوں کے تجربات سے بالخصوص ان ملکوں کو فائدہ پہنچے گا جو ہندوستان کی طرح اپنی ترقی کیلئے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے کہا کہ ’’جب کوئی ایک ترقی پذیر ملک ’کلین انڈیا مشن‘ کے تحت ڈرینج کے استعمال اور صفائی کی مہم کو کامیابی کے ساتھ روبہ عمل لایا اور محض اندرون پانچ سال اپنے ملک واسیوں کیلئے 110 ملین ٹائلیٹس تعمیر کیا۔ یہ تمام اس کے ایسے کارنامے اور نتائج ہیں جو ساری دنیا کو ایک ترغیبی پیغام دیتے ہیں۔ مودی حکومت نے 2 اکٹوبر 2014ء کو گاندھی جینتی تقاریب کے موقع پر کلین انڈیا مشن شروع کی تھی۔ حکومت کی اس ترجیحی اسکیم کے اہم خدوخال میں ہر گھر کو ٹائلیٹ فراہم کرنا اور ہر محلہ میں عام اجتماعی بیت الخلاء کی تعمیر نیز اہم مقامات پر ٹائلیٹس بنانے کے ساتھ گندگی کی صفائی کا مؤثر انتظام بھی شامل تھا۔ بل اینڈ ملندا گیٹس فاونڈیشن نے منگل کو وزیراعظم کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ہندوستان میں سوچھ بھارت ابھیان کے ذریعہ صحت و صفائی کے مؤثر انتظامات کے علاوہ ہر فرد کی محفوظ ٹائلیٹ تک رسائی کو یقینی بنانے کیلئے کئے جانے والے اقدامات پر ’گلوبل گول کیپر‘ ایوارڈ دیا تھا۔ مودی نے اپنے خطاب کے دوران ’ایوشمان بھارت‘ اسکیم کی اہم خصوصیات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ جب کوئی ترقی پذیر ملک دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس اسکیم کو کامیابی کے ساتھ روبہ عمل لاتا ہے اور 500 ملین افراد کو سالانہ 50 ہزار کروڑ روپئے کا احاطہ کرنے والے پراجکٹ کے تحت مفت علاج کی سہولتیں پہنچاتا ہے تو یہ کارنامے دراصل اس اسکیم کا نتیجہ ہیں جو دنیا کو ایک نیا راستہ دکھاتی ہیں۔ نریندرمودی نے بحیثیت وزیراعظم ہند 2014ء میں اقوام متحدہ کے اجلاس عام سے پہلی مرتبہ خطاب کیا تھا جس کے پانچ سال بعد آج یہ ان کا یہاں دوسرا خطاب تھا۔ آدھار پراجکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے مودی نے کہا کہ ’’جب کوئی ترقی پذیر ملک اپنے شہریوں کیلئے دنیا کا سب سے بڑا شناختی پراجکٹ شروع کرتا ہے انہیں بائیومیٹرک شناخت دیتا ہے جس سے کسی شہری کو اپنے حقوق تک رسائی کی سہولتیں دستیاب ہوتی ہیں اور رشوت ستانی پر کنٹرول کے ذریعہ 20 ارب ڈالر کی بچت ہوتی ہے تو یہ دراصل عصری سائنس اور ٹیکنالوجی پر مبنی نظام کے مؤثر استعمال کا نتیجہ ہے جو دنیا کو ایک نئی امید ملتی ہے۔
