شجسوین جیئراتھ
پاکستان جانے کا شوق کہاں سے، کب سے ذہن میں بیٹھ گیا تھا، کچھ یاد نہیں۔ پیدائش اور ابتدائی تربیت پنجاب میں ہوئی تھی۔ سرحد کے قریب ہی والد اور امی کا گاؤں تھا، جہاں گرمیوں کی چھٹیاں بسر ہوا کرتی تھیں۔ وہ بھی 1947 کے بٹوارے کی زد میں آیا اور یہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا، زمین کی گود لہولہان ہوگئی اور اس کے دامن میں ہنسنے کھیلنے والے بچے مذہب کے نام پر جدا ہوگئے۔ کچھ خاردار سرحد کے اس پار اور کچھ اس پار۔
میرے والد سرحد کے اُس پار سرکاری ملازم کی حیثیت سے خدمتگذار تھے۔ ظاہر ہے اس قتل و غارت، بلوؤں کے دوران ان کو سب کچھ چھوڑ کر سرحد کے اِس پار آنا پڑا۔ ان اندوہناک حالات سے گزرتے ہوئے وہ صحیح سلامت پہنچ تو گئے اپنی دیہی بستی میں ان کا سرگرفتہ سفر ہم بچوں کیلئے گفتگو نہ گفتگو بہ حقیقت کہانیوں کے پٹارے بھی لے آیا تھا۔ والد صاحب ہمیں دل شکن تاریخی سلسلوں سے وابستہ چھوٹے چھوٹے خطروں بھرے قصے سناتے اور ہم سنتے سنتے سو جاتے۔ماحول خطرہ کا تھا۔ سرحد کے دونوں سمت لوگ ایک وحشت ایک پاگل پن میں گرفتار تھے لیکن ان کہانیوں میں کسی قوم کی جانب سے کوئی نفرت کی خو نہ تھی۔ خیر زندگی کی روانی نے جتنی بھی عمر بخشی والد اور امی ہمیں تنہا چھوڑ چلے گئے یادیں برقرار رہ گئیں۔
پاکستان میں ہندوستانی شہریوں کو سڑک سے سفر کرنے کی قانونی اجازت نہ تھی۔ اسی لئے کام مشکل تھا لیکن خطرہ کی جانب سے ایک بے غرض، بے نیاز رویہ اختیار کرکے جانے کی عادت پرانی تھی۔ مزید اندرونی بے چینی اور جستجو نے نئے حفاظتی فکروتوجہ سے بھی آزاد کردیا تھا۔اسی خلش اور جنون میں دیہی علاقہ سے ہوتے ہوئے ہم دو گھنٹے کے بعدBHCW پہنچ ہی گئے۔ وہاں کے منظر نے ایک دم بچپن کی یادیں تازہ کردیں۔ کنال ہیڈورکس میں ایک بڑی نہر کے ذریعہ ڈیم سے پانی لیکر دو تین چھوٹی نہروں میں الگ الگ سمت بھیج دیا جاتا ہے تاکہ مختلف علاقوں میں تقیسم ہوکر وہاں کی کاشتکاری کو سیراب کیا جاسکے۔ یہ ایک بہت پھیلا ہوا نہروں کا جال ہے جو انگریزوں نے بنجر زمین کو آباد کرنے کیلئے قائم کیا تھا۔ اس کے اردگرد نگرانی کیلئے ایک پوری افسر شاہی قائم تھی جس کا حصہ میرے والد تھے۔ مقامی افسر کی رہائش کیلئے ایسی دوردراز جگہ پر خاص کوٹھی بھی موجود ہوتی تھی۔
خیر زندگی فقط اگے ہی چلتی ہے یہ سوچ کر والدین کو چند اشکوں کی عبادت پیش کرکے لوٹ جانے کے ارادے سے قدم واپس بڑھائے۔ کار کے پاس پہنچ کر اندر بیٹھنے ہی والی تھی کہ ایک عورت ایک چھوٹے سے گھر کے باہری حصہ سے نکل کر ہاتھ سے مجھے اشارے کرکے اپنی طرف بلاتی ہے مجھ سے کوئی 10-15 سال چھوٹی۔ اندازاً 30-35 سال کی ہوگی۔ ایک سرکاری چپراسی کی بیوی۔ شلوار قمیض پہنے سر پر دوپٹہ اور سیدھا سادھا نیک اور معصوم چہرہ تھا۔ اس کام میں اپنے دوست کو یہ بولکر کار سے نکلی۔ وہ مجھے پیار سے بلا رہی ہے نہ ملی تو اسے برا لگے گا۔ تم بیٹھو میں بس 5 منٹ میں آئی۔ میں اس کی طرف بڑھنے لگی۔ کوئی 100 گز کا فاصلہ ہوگا جیسے ہی ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب پہنچے نہ جانے کیا ہوا۔ ایک برق سی چمکی اور ہم دونوں زور سے گلے لگ گئے گویا صدیوں کی تشنگی کا بند ٹوٹ گیا اور میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ وہ میری پیٹھ کو یہ کہتے ہوئے پیار سے سہلا رہی تھی کہ کوئی بات نہیں بی بی سب ٹھیک ہوجائے گا بی بی ٹھیک ہوجائے گا۔! کیا ٹھیک ہوجائے گا؟ وہ کون تھی؟ کیا دعا دے رہی تھی مجھے؟ میرا اس قدر اس کی باہوں میں رونا۔ کیوں اسے حیران نہیں کیا؟ کیوں ایک انجان اجنبی خاتون نے اتنی قدر کی کیفیت اور بے تکلفی سے اپنی باہوں میں پناہ دی؟
حیرت کی بات یہ تھی کہ ہم دونوں کو اس صورتحال سے کوئی تعجب محسوس نہ ہوا بلکہ ایسے لگا جیسے ایک پرانی پہچان سے فطری طور پر ملتا تھا۔ اس صورتحال میں ایک دوم واپس جانا تو ممکن نہ تھا اس کے دروازے کی طرف چلے اور اندر گئے تو اونچی دیواروں سے گھیرا ایک چھوٹا سا کھیل کا میدان تھا جس کے پیچھے ایک میلہ سا مچکرا سا پردہ جیسے ایک کمرے کی نمائندگی کررہا ہو۔ اس نے جلدی سے کٹھیا بچھائی اور اپنی 6-7 سال کی بیٹی کو اندر سے اچھی سی چادر لانے کو کہا پھر اپنے لباس میں سے پیسے نکال کر اپنی بچی کو دودھ اور بسکٹ لانے کیلئے پاس کی ایک ہی دکان پر بھیج دیا۔ وہ بچی بھی اچھل کود کر پرجوش انداز میں اپنی امی کی ہدایت پر عمل کرتی ہوئی بہت خوشی محسوس کررہی تھی۔ مہمان کا گھر آنا اور وہ بھی ہندوستان سے۔ ایک خاص موقع اور ماجرا تھا۔ بس پھر تو چائے، پانی، باتیں ہوئیں۔ ایک دوسرے کے خاندانی پس منظر اور تاریخ کا تبادلہ کیا۔ بچی نے بالی ووڈ کے گانوں پر بڑے شوق سے ناچ کے دکھایا اور اسی طرح دو گھنٹے گذر گئے۔ رخصت کی اجازت لیتے ہوئے میں اٹھی تو اس نے کھانے کیلئے رکنے کو کہا لیکن میں وقت کی پابندی کے سبب سے جلد روانہ ہونے کی مجبوری بتاتے ہوئے اپنا پرس اٹھا کر دروازہ کی سمت بڑھنے لگی۔ اتنے میں اس نے دومنٹ رکنے کی گزارش کرتے ہوئے اپنی بچی کو کچھ اشارہ کیا بچی نے بھی سازشی لہجہ میں ماں کا اشارہ سمجھتے ہوئے بھاگ کر اندر سے ایک پلاسٹک کا لفافہ لاکر میری طرف بڑھادیا جس میں گلابی رنگ کے سوٹ کا کپڑا اور گلابی چنی موجود تھی۔ مجھے دیتے ہوئے کہتی ہے ’’آپ پہلی بار ہمارے گھر آئے ہو… یہ کیا ہورہا تھا؟ کیوں ہورہا تھا؟ کون کررہا تھا؟ میرے ہوش و حواس گم ہوگئے تھے۔ بے حسی کی صورتحال میں دماغ کام نہیں کررہا تھا، اس جذباتی کیفیت میں میں نے اپنا پرس کھول کر شمار کئے بغیر جتنی پاکستانی کرنسی تھی نکال کر اس کے ہاتھ میں دینے لگی۔ تو دوسرا جھٹکہ لگا۔ وہ درد بھری نظروں سے دیکھ کر بولی : نہیں بی بی ہم نے اس کیلئے تو نہیں دیا تھا۔
شرمسار ہوکر میں نے پیسے تو واپس لے لئے اسی وقت اپنے بازو میں جو ایک ہی چوڑی تھی نکال کر اس کی بچی کے ہاتھ میں پہنادی۔ یہ کہتے ہوئے ’’یہ میری ماں کی آخری نشانی، میری بیٹی کی جان تھی۔ تو میری اس بیٹی کو گئی۔ اب اس کے حیران ہونے کا عجیب عالم تھا آنکھیں اور ہونٹ دونوں کھلے رہ گئے۔ ایسا لگا جیسے ہم دونوں ایک تمثیل میں حصہ لینے والے اداکار تھے جس کا نقشہ بابا بلے شاہ نے واضح کیا ہوگا۔ ان کے ارشاد پر عمل ہورہا تھا۔ ہم کر نہیں رہے تھے۔
اسی الجھن میں وہاں سے رخصت ہوئی لیکن اس دل پہ نقش شدہ گمبھیر ملاقات نے میرے پورے وجود کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اپنے اندر کی بے چینی کو کم کرنے کی کوشش میں رات بھر میں دوستوں سے بار بار اس واقعہ کو بیان کرتی رہی۔ برسوں گذر گئے وہ گلابی سوٹ آج بھی میرے پاس حفاظت سے موجود ہے۔ ایک چھوٹی سی التجا ہے اپنے عزیزواقارب سے کے میری میت پر مجھے یہی لباس پہنادیا جائے تاکہ میں ان ہی بانہوں میں سمٹ کر اسی محبت کی گرمی محسوس کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں۔