ہندوستانیوں کی زبان اردو

   

لکشمی دیوی راج

اردو زبان ہے مذہب نہیں ہے! زبانوں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور زبانوں کی طرح اردو بھی ہندوستان کی ایک زبان ہے۔ ہندوستان میں پیدا ہوئی اور یہیں پر نشو نما پائی۔ ہر علاقے کی اپنی ایک زبان، کھانا پوشاک، اپنی تہذیب ہوتی ہے۔ جیسے گجرات میں گجراتی، مہاراشٹرا میں مراٹھی، کیرالا میں ملیالم، مدراس میں ٹمل۔ ان ہی سب زبانوں اور تہذیب سے ایک خوب صورت ملک ہندوستان بنا ہے۔ اسی انیکتا میں ایکتا کی وجہ سے ہمارا ملک دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ہر جگہ کا ایک منفرد ماحول ہوتا ہے۔ کشمیر میں کشمیری بولی جاتی ہے اسی طرح دکن میں اردو بولی جاتی ہے۔ محمد قلی قطب شاہ جو پہلا صاحب دیوان شاعر تھا، عبداللہ قطب شاہ کا کلام بھی اردو میں تھا۔ انہیں ہندوستانی موسیقی سے کافی لگائو تھا۔ اس کے کلام سے ظاہر ہے کہ بادشاہ نے مذہب کو زبان سے یا زبان کو مذہب سے نہیں جوڑا۔ ایک شعر پیش ہے۔
’’ہر اک تیرا پلک ہے رام کا بان
ہر اک سوکا ہے تیرا جیون کٹارا‘‘
اردو زبان و صحافت کا بڑا اہم حصہ رہا۔ ہماری تحریک آزادی میں ہمارے ادیب قوم کو انگریزوں کے خلاف ابھارتے تھے۔ پنڈت برج نارائن چکبستؔ نے لاجواب کلام لکھا اور بسمل نے کیا خوب کہا تھا ’’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔‘‘ انقلاب زندہ باد کا نعرہ بلند کیا گیا۔ یہ سب کچھ اردو کی دین ہے۔ بقول پروفیسر شمیم علیم ’’اردو شہد سے زیادہ شیریں، گلاب سے زیادہ معطر ہے۔‘‘ اردو دولہن زبان ہے جسے فارسی، سنسکرت، برج بھاشا سے سجایا سنوارا گیا ہے۔
ایک مرتبہ ادبی ٹرسٹ کے مشاعرے میں قتیل شفائی صاحب موحجود تھے۔ انہوں نے دیکھا لوگ دیواروں پر چڑکر بیٹھے مشاعرہ سن رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں اتنا اجتماع نہیں ہوتا! کیسے ہوگا؟ پھر شمیم علیم صاحبہ کی بات یاد آئی ’’اردو پاکستان کو بیاہی گئی ہے۔‘‘ وہاں کی عام زبان تو پنجابی ہے۔
میں نے اردو گھر پر سیکھی اور انگریزی اسکول میں۔ ہم کو اردو پڑھانے روز صبح ماسٹر صاحب آتے تھے۔ وہ ہم کو نہ صرف پڑھاتے تھے ساتھ ہی ساتھ برو کے قلم سے خوش خط لکھواتے تھے۔ انہوں نے ہم کو فارسی سکھانے کی کوشش کی مگر بدقسمتی سے ہم نے کوشش نہیں کی۔ اب بہت پچھتاتی ہوں۔ گھر میں سبھی اردو بولتے تھے۔ میرے والد، میرے دونوں ججا سبھی، اردوجانتے تھے۔ والدہ بھی روز اردو اخبار پڑھتی تھیں۔ میرے والد بھگوت گیتا اردو میں پڑھتے تھے۔ حالانکہ انہوں نے
Edenberg
سے سرجری کی تعلیم حاصل کی۔ پہلی جنگ عظیم کے زمانے میں وہاں کی سرجریاں کیں مگر گھر میں میں نے انہیں انگریزی میں کچھ کہتے سنا۔ اردو نہ صرف ہمارے گھر میں بلکہ ہماری پوری برادری میں بولی جاتی ہے اور اردو اخبار پڑھا جاتا ہے۔ اردو ہماری مادری زبان ہے۔
میری تعلیم
Most Holy Rosery Convent
سے شروع ہوئی جہاں میری کلاس میں میری اردو ان سب لڑکیوں سے بہتر تھی۔ اس زمانے کے وزیر تعلیم نواب مہدی یار جنگ کے دست مبارک سے مجھے
Certificate
عطا کیا گیا۔ میرا داخلہ محبوبیہ اسکول میں کرایا گیا وہاں میری دوستی ایک پارسی لڑکی سے ہوئی جو اردو میں بہت کمزور تھی اس دوست کا ساتھ دیتے میں نے
Lower Urdu
لے لیا۔ میں اردو کلاس میں سب سے پیچھے بیٹھتی اردو کتابیں پڑھا کرتی۔ ہر روز حصت املا لکھواتی تھیں، دو الفاظ ضرور لکھوائے جاتے حتی المقدور، حتی الامکان، میں پیچھے بیٹھی ہنتی یا مسکراتی تو جب پوچھتی تھیں ’’کیا ہورہا ہے؟‘‘ میں فوراً جواب دیتی ’’حصمت شفیق الزماں صاحب ہنسارہے ہیں۔‘’ وہ مسکراکر چپ ہوجاتی تھیں۔ ہمارے گھر کا ماحول اردو کا تھا۔ میں جب بھی حیدرآباد سے باہر جاتی تو ’’سیاست‘‘ اخبار کو
miss
کرتی ہوں۔
حیدرآباد میں قطب شاہی دور سے اردو رائج تھی۔ کاچی گوڑہ (برکت پورہ) میں رائے برکت رائے کا مکان تھا جہاں ہر ماہ ست سنگت ہوا کرتا جہاں پر خواتین بھجن کیرتن کرتی تھیں۔ میری والدہ کبھی کبھار چلی جاتی تھیں۔ اس موقع پر خواتین میں اردو میں چھپی بھجنوں کی کتابیں تقسیم کی جاتی تھیں۔ اور بھجن گائے جاتے۔ اردو مسلمانوں کی زبان کیسے ہوئی؟
میرا بیٹا
Rishi Valley School
میں زیر تعلیم تھا۔ جب بھی وہ چھٹیوں میں گھر آتا تو اس کو اردو پڑھانے
(Tution)
ماسٹر رکھا۔ اس نے میری والدہ سے میری شکایت کی۔ اماں جان دیکھئے نہ چھٹی میں ممی نے
Tution
لگا رکھا ہے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ میں اس کو اس کی مادری زبان سے محروم نہیں رکھنا چاہتی ہوں۔ وہ اعلی تعلیم حاصل کرنے امریکہ چلا گیا۔ پہلی مرتبہ اس سے ملنے گئی۔ اتوار کے دن صاحبزادے بیٹھے مہدی حسن کو سن رہے ہیں۔ مجھے اچھا لگا۔ جب وہ گانا ختم ہوا تو میرے بیٹے نے مجھ سے کہا ’’مما کاش میں نے اردو دلچسپی سے سیکھی ہوتی، بعض الفاظ سمجھ نہیں پاتا ہوں تو الجھن ہوتی ہے۔‘‘ میں نے میری بھانجی کو بھی محترمہ غیوارا نسا سے اردو سکھوائی۔ ہم سب پر لازم ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو اس میٹھی زبان سے محروم نہ کریں۔ گھر میں اردو میں بات چیت کریں نہ کہ انگریزی میں۔ اپنی تہذیب کو برقرار رکھیں۔
میں نے
English literature
سے گریجویشن کیا۔ مگر اردو جیسی مٹھاس نہیں ملی! نہ عبداللہ، قطب شاہ جیسی تسبیح ملتی نہ مخدوم کی طرح پتوں کے کھڑکنے کی آواز سنائی دی۔ ڈی ڈی اردو سے محترمہ کامنا پرشاد کس انداز سے اردو کے پروگرام پیش کرتی ہیں۔ دہلی میں سالانہ ’’جشن اردو‘‘ کے نام سے مشاعرہ منعقد کرواتی ہیں۔ اس کے علاوہ کلکتہ میں بھی مشاعرہ کرواتی ہیں اگر اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے تو آلوک سری واستو، لتا حیا، منیش شکلا اردو میں شاعری کیوں کرتے ہیں؟ داغ دہلوی نے کیا خوب کہا ہے:
’’اردو ہے جس کا نام ہمے جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے‘‘