محمد اسد علی ایڈوکیٹ
موجودہ پرآشوب دور میں آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔ مکانات اور اراضیات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ اس دوران ان حالات میں ایجنٹس و دیگر اراضیات یا فلاٹ کی خرید و فروخت میں عام طور پر دھوکہ دہی کا ارتکاف کرتے ہیں۔ بعض لوگ جو بیرونی ملک میں جا کر بڑی محنت سے پیسے کماتے ہیں اور رہنے کیلئے مکان یا اپنی جائیداد کے حصول کیلئے بعض ایجنٹس اور درمیانی افراد کی خدمات سے استفادہ کرتے ہیں۔ بہت سی ایسی مثالیں ہیں جس میں خریداروں کو دھوکہ بازی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کی خون پسینے کی کمائی پانی میں بہا دینے کے مترادف ان لالچی اور حریف لوگوں کی پیسے کی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کی نظر میں آخرت کوئی چیز نہیں ہے اور ایسے لوگ اپنے ضمیر کو دفن کردیتے ہیں اور دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہوئے اپنے تجوریاں بھرتے ہیں اور اپنی اولاد کیلئے عیش و عشرت کی زندگی چاہتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہیکہ انہیں لوگوں کو غلط باور کراکر اور دھوکہ دیکر اپنے تجوریاں بھرنے کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دیتا ہے۔ دھوکہ دہی کے شکار افراد جنہیں مکانات اور اراضیات کی خریداری میں دھوکہ دہی کا شکار بنایا جاتا ہے اور ان کی محنت کی کمائی ان جیب کتروں کے جیب میں چلی جاتی ہے۔ دھوکہ بازی آج کل ایک معمول بن چکی ہے اور دیکھا گیا ہیکہ بلالحاظ مذہب و ملت لالچی اور حریص لوگ دھوکہ بازوں کے حربہ کو استعمال کرتے ہوئے معصوم لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور دھوکہ کھانے والے بے بسی سے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں ضرورت ہیکہ جائیداد یا زمینات کی خریداری سے قبل مکمل تحقیقات کی جائے اور درمیانی فرد کے کردار اور پس منظر کا بھی جائزہ لیا جائے۔ اس کے علاوہ اس معاملے میں وکلاء سے بھی مشورہ حاصل کیا جاسکتا ہے جو مستقبل میں بہتر ثابت ہوسکتا ہے۔ موجودہ دور میں عام طور پر پیسے کو سب سے زیادہ اہمیت دی جارہی ہے حتی کہ اگر مالی فائدہ ہو تو ایسی صورت میں مذہب اور انسانیت و اخلاقیات کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ جو دوسروں کو یہ کہتے ہیں کہ حق تلفی نہیں کرنی چاہئے لیکن وہ خود اس کا شکار ہوتے ہوئے یعنی حق تلفی میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ پیسے کی حرص و ہوس اس قدر بڑھ رہی ہیں کہ جائیداد کیلئے باپ بیٹے اور بھائی بہن میں جھگڑے ہوتے ہیں اور و ہ ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں اور عدالتی کارروائی کی نوبت آتی ہے۔ بعض اوقات اس معاملے میں خون خرابہ بھی ہوتا ہے۔ کچھ والدین کی ناعاقبت اندیشی سے بعض اوقات اولاد کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ ایسے کئی واقعات ہیں جس میں ضعیف والدین کو گھر سے نکال کر صرف جائیداد کی خاطر یا تو سڑک پر ڈال دیا گیا ہے یا پھر انہیں اولڈ ایج ہوم میں داخل کیا جاتا ہے۔ جائیداد کے معاملے میں بھائی بھائی ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ہیں۔ علاوہ ازیں جائیداد کی تقسیم کے معاملے میں بھی تمام اولادوں کے ساتھ انصاف ہونا چاہئے اور کسی کے خلاف بھی جانبداری سے کام نہیں لینا چاہئے۔ اکثر دیکھا گیا ہیکہ لڑکا یا لڑکی کی طرف جھکاؤ کی وجہ سے اس معاملے میں ناانصافی ہوتی ہے لیکن حق تلفی ایک سنگین جرم ہے۔ آج کے دور میں ہر شخص یہ چاہتا ہیکہ وہ کسی بھی صورت میں دولت یا جائیداد حاصل کرے جبکہ بہت سے ایسی مثالیں ہیں جس میں ناحق اور ناجائز طور پر دولت یا جائیداد حاصل کی جاتی ہے اور فریق مخالف کمزور ہوتو اسے پیسے یا طاقت کے بل بوتے کچل دیا جاتا ہے اور اس کی کہیں بھی سنوائی نہیں ہوتی ہے اور پھر انصاف نہیں ہوتا ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہیکہ پہلی بیوی کی موجودگی میں ہی دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کرتے ہیں۔ ایک سے زائد شادی کے بعد عام طور پر شوہر کا جھکاؤ دوسری، تیسری یا چوتھی بیوی کی طرف ہوتا ہے۔ پہلی اور دوسری بیوی اور بچوں سے لاپرواہ ہوکر ضرورت سے زیادہ تیسری یا چوتھی بیوی کے طرف جھکاؤ کا رجحان رکھتا ہے اور دوسرے بیویوں کے بچوں کو کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیا جاتا ہے اور اگر بیوی اعتراض کرے تو اس کے رشتہ دار اور دوسرے ان کا ساتھ نہیں دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں بعض اوقات بچے غلط راستوں پر چلنے لگتے ہیں جس کی ذمہ داری باپ پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مذہب کے حوالے کا غلط استعمال کرتے ہیں جو چار شادیوں کا جواز پیش کرتے ہیں جبکہ تیسری یا چوتھی شادی کی صورت میں پہلی اور دوسری بیوی کے اعتراض کرنے پر ان کی اولاد کو جائیداد سے محروم کردیا جاتا ہے اور اگر شوہر کا انتقال ہوجائے تو اس صورت میں بیوی اور اس کے بچوں کو نہ تو جائیداد میں حصہ ملتا ہے اور نہ دیگر اثاثوں میں انہیں کچھ حاصل ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہیکہ شوہر عیش کی زندگی گذارے آخرت کی فکر کئے بغیر اپنی بیویوں کو اور اس کے بچوں کو جائیداد اور دیگر چیزوں سے محروم کردیتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہیکہ اپنی تمام بیویوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے لیکن چار شادیوں کا جائز ہونے کا جواز پیش کرنے والے اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں اور من مانی مذہب کی ترجمانی کرنے لگتے ہیں جو انتہائی افسوسناک اور آخرت کو برباد کرنے والی بات ہوتی ہے۔ ایسے مذکورہ بالا افراد کیلئے قابل فکر فتویٰ جامعہ الازھر کے مفتی اعظم نے جاری کیا ہے جو حسب ذیل ہے۔
مصر کی سب سے بڑی دینی درسگاہ جامعہ الازھر کے سربراہ کے جاری ہونے والے بیان میں انہوں نے کہا کہ قرآن پاک کا حکم ہے : یعنی تمہیں ڈر ہوکہ تم بیویوں میں انصاف نہیں کرسکوگے تو ایک ہی کافی ہے ان کا کہنا تھا کہ ایک بیوی کی موجودگی دوسری شادی کیلئے دونوں میں انصاف بنیادی شرط ہے انصاف نہیں تو کثرت ازدواج عورتوں اولاد دونوں پر حرام بلکہ ظلم ہے۔ افسوس کی بات یہ ہیکہ جو لوگ ایک سے زائد شادیاں کرتے ہیں اور اپنی بیویوں سے یکساں سلوک نہیں کرتے اور جائیداد کی تقسیم کے معاملے میں ناانصافی یا پھر جائیداد میں حصہ نہیں دیتے ہیں اگر ان تمام افہام و تفہیم کی باتوں کے باوجود بعض شوہر اپنی بیویوں کے ساتھ ناانصافی کرتے رہے تو یوم حشر ان کی حالت انتہائی افسوسناک ہوگی اور وہ اپنے کئے پر پچھتائیں گے لیکن اس وقت ایسا پچھتاوا کسی کام کا نہیں ہوگا۔ مزید تفصیلات کیلئے اس نمبر 9959672740 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔