رامچندر گوہا
سال 2006ء میں مَیں نے ٹائم آؤٹ ممبئی کیلئے ایک کالم تحریر کیا تھا (ٹائم آؤٹ ممبئی اب بند ہوچکا ہے) جس میں اس بات پر روشنی ڈالی تھی کہ کسی شہری اکائی کو یا کسی شہر کو کس بنیاد پر کس معیار کے نتیجہ میں عالمی شہر سمجھا جاتا ہے۔ اس بنیاد اور معیار کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے راقم الحروف نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ اس شہر کا حجم بہت بڑا ہونا چاہئے باالفاظ دیگر اس شہر کا وسیع و عریض ہونا ضروری ہے۔ اس کی اپنی ایک تاریخی اہمیت ہونی چاہئے، اس شہر کے دامن میں بسنے والے لوگوں کی ایک پرجوش تہذیبی و ثقافتی زندگی ہونی چاہئے۔ اس کا قابل ستائش سماجی (بشمول لسانی و مذہبی) تنوع ہونا چاہئے اور اس شہر کا اکنامک پاور ہاؤس (اقتصادی مرکز) ہونا بھی ضروری ہے تب کہیں جاکر ہم ایسے شہر کو عالمی شہر تصور کرسکتے ہیں۔ میں نے اپنے مضمون کا اختتام اس دعویٰ کے ساتھ کیا تھا کہ دنیا میں صرف تین عالمی شہر ہیں لندن، نیویارک اور ممبئی۔ مجھے اپنے اس مضمون کی یاد اُس وقت آئی جب مجھے نیویارک سٹی کے عہدہ میئر پر فائز ہونے کی کوشش کرنے والے ذوہران ممدانی کی انتخابی مہم کے بارے میں میڈیا رپورٹس پڑھنے کا موقع ملا۔ آپ کو یہ یاد دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ برطانوی شہر لندن ایک عیسائی اکثریتی شہر ہے جہاں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی بہ نسبت عیسائیوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے اور اس شہر کا میئر کوئی عیسائی نہیں بلکہ ایک مسلم ہے اور ہوسکتا ہے کہ بہت جلد نیویارک سٹی کے عہدہ میئر پر ایک مسلم ذوہران ممدانی فائز ہوجا۔ حالانکہ نیویارک سٹی میں عیسائیوں، یہودیوں اور لادین مرد و خواتین کی اکثریت ہے۔ اس سوال کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں یہ بات عود کر آئی کہ ہمارا تیسرا عالمی شہر ممبئی اِس دوڑ میں لندن اور نیویارک سٹی کو بہ آسانی مات دے سکتا ہے کیوں کہ ہندوستان کے اس اقتصادی دارالحکومت میں اب تک 6 مرتبہ عہدہ میئر پر مسلمان فائز ہوچکے ہیں۔ سب سے پہلے 1934ء میں ایک مسلم امیدوار کو میئر بنایا گیا اور آخری مرتبہ 1963ء میں ایک مسلم امیدوار کو ممبئی کا میئر بنایا گیا تھا۔ اِس کالم میں راقم الحروف ممبئی کے 6 مسلم میئرس میں سے ایک میئر پر توجہ مرکوز کیا ہے۔ اگرچہ اس میئر نے مختصر مدت کے لئے خدمات انجام دیں لیکن ان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ممبئی کے عہدہ میئر پر فائز ہونا ان کا بہت اہم نمایاں کارنامہ نہیں تھا وہ خود اس عہدہ کے لئے ایک اعزاز تھے۔ ان کے بارے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ان کا نام یوسف مہر علی تھا اور ان کے بارے میں یہ کالم تحریر کرنے کی کئی ایک وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ یوسف مہر علی جن کی پیدائش 23 ستمبر 1903ء کو ہوئی تھی، آج سے 75 سال قبل 2 جولائی 1950ء کو اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ یوسف مہر علی کی پیدائش ملک کے اقتصادی دارالحکومت ممبئی میں ہوئی اور ابتدائی تعلیم اُنھوں نے بھردا ہائی اسکول سے حاصل کی اور ELPHINSTONE COLLEGE کے قابل ترین طلبہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ کالج میں انھوں نے ایک بہترین مقرر کے طور پر شہرت پائی خاص کر مباحث میں حصہ لے کر وہ مدمقابل اور دوسروں کو لاجواب کردیا کرتے تھے۔ یوسف مہر علی نے قانون کی ڈگری بھی حاصل کی لیکن انھیں قانون کی پریکٹس کا لائسنس دینے سے انکار کردیا گیا تاہم انھوں نے اپنی سیاسی فکر و خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خود کو ملک کی تحریک آزادی سے جوڑ دیا اور 1928ء میں سفید فام ارکان پر مشتمل سائمن کمیشن کے خلاف ہندوستانیوں کے احتجاجی مظاہروں میں اہم اور یادگار کردار ادا کیا اور اس کے دو سال بعد نمک کی ستیہ گرہ کے سلسلہ میں انھیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ 1934ء میں کانگریس سوشلسٹ پارٹی کا قیام عمل میں آیا جو گاندھی کی قیادت میں چلنے والی سرپرست پارٹی کو مساوات پر مبنی سمت دینا چاہتی تھی۔ بہرحال یوسف مہر علی سوشلسٹ کانگریس پارٹی کے اہم ترین رہنما بن گئے اور خاص طور پر وہ مزدوروں کے حقوق اور ایشیاء و افریقہ میں مخالف نوآبادیات تحریکوں میں بہت زیادہ دلچسپی لینے لگے۔ 1930ء سے ہی وہ سوشل ازم کو ملک بھر میں پھیلانے کی خاطر بے تکان دورے کرتے رہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے یوروپ اور امریکہ کے دورے بھی کئے تاکہ وہاں ڈیموکریٹک سوشلسٹ کے ساتھ خلیج پاٹی جاسکے۔ اپریل 1942ء میں یوسف مہر علی بمبئی کے میئر منتخب ہوئے۔ اسی سال اگست میں گاندھی نے ہندوستان چھوڑ دو تحریک شروع کی۔ بحیثیت میئر بمبئی گاندھی کے خیرمقدم کی ذمہ داری مہر علی کی تھی، اس وقت گاندھی جی بمبئی میں کل ہند کانگریس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لئے آئے تھے اور جس میں تاریخی قرارداد منظور کی گئی۔ یہ بھی مشہور ہے کہ وہ یوسف مہر علی ہی تھے جنھوں نے Quit India (ہندوستان چھوڑ دو) کا نعرہ دیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ غلط بھی ہو جبکہ اصل میں 1928ء میں سائمن واپس جاؤ Go Back Simon جیسا مقبول عام نعرہ بھی یوسف مہر علی نے دیا تھا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 1986ء میں مدھو ڈنڈوتے کی سوانح حیات شائع ہوئی، اس میں مذکورہ دعوے کی تصدیق نہیں ہوتی، اس میں محض یہ لکھا گیا ہے کہ مہاتما گاندھی کے آشیرواد اور ان کی رضامندی سے مہر علی کی پدما پبلیکیشنز نے اگست 1942ء کی تحریک کے موقع پر ہندوستان چھوڑ دو Quit India کے زیرعنوان ایک کتابچہ شائع کیا۔ ویسے تو مہر علی کو کئی مرتبہ جیل جانا پڑا لیکن ایک مرتبہ جبکہ وہ لاہور کی جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے تھے، اپنے آبائی شہر ممبئی سے بہت دور اپنی شخصی ڈائری میں اُنھوں نے بطور خاص یہ نوٹ لکھا کہ لاہور جیل میں وہ اُن بیارکوں کے بالکل قریب ہوگئے جہاں لالہ لاجپت رائے کو قید میں رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ اُس مقام کے بھی بالکل تھا قریب جہاں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں سکھ دیو اور راج گرو کو پھانسی پر لٹکایا گیا تھا۔ وہ مقام اس باؤلی سے بہت قریب تھا جس کا پانی مہاراجہ رنجیت سنگھ بہت پسند کیا کرتے تھے اور آج 1942)) میں اُسی باؤلی کا پانی لاہور جیل کے تمام قیدیوں (مکینوں) کے لئے کافی تھا۔
آپ کو بتادوں کہ راقم الحروف نے یوسف مہر علی کا نام پہلی مرتبہ 1980ء کے اوائل میں سنا جب ایک دوست نے جو یوسف مہر علی سے موسوم اربن اسٹڈیز کے سنٹر میں کام کرتا تھا۔ اس کے توسط سے یہ نام سنا۔ چند سال بعد نیویارک کی ایک کتابوں کی دکان سے میں نے امریکی صحافی اور مورخ برٹ رم ڈی وولفے کے مضامین کا مجموعہ خریدا جس کا عنوان “Strange Communist I have Known” تھا اور اس میں گاندھی بمقابلہ لینن کے زیرعنوان مضمون میں یوسف مہر علی کے بارے میں ایک تحریر موجود تھی۔ والفے اور مہر علی کی 1930ء کے وسط میں دوستی ہوئی۔ مہر علی نے اُس وقت امریکہ کا پہلا دورہ کیا تھا۔ مہر علی سے ملاقات سے قبل والفے امریکی کمیونسٹوں کے بہت قریب ہوگئے تھے جو سویٹ یونین کے ڈکٹیٹر لینن اور اسٹالن سے اندھی وفاداری نبھارہے تھے اور اُن لوگوں نے اس کا حلف اُٹھا رکھا تھا اور پوری شدت کے ساتھ اس بات میں یقین رکھتے تھے کہ نیک مقاصد کے حصول کے لئے انتہائی غیر اخلاقی طریقے استعمال کرنا بھی جائز ہے۔ یوسف مہر علی سے بات چیت کے دوران والفے ان کے سوشل ازم کی انسانی ہمدردی سے کافی متاثر ہوئے اور یہ گاندھی کا اثر تھا جو کانگریس سوشلسٹ پارٹی میں موجود تھا جس نے اسے کمیونسٹوں کی اخلاقی کرپشن سے محفوظ رکھا تھا۔ والفے نے اپنے مضمون میں امریکہ کے مختلف مقامات کے دوروں کی یادیں بھی تازہ کی اور بتایا کہ وہ کس طرح Cup Cod کے دورے کے موقع پر پانی سے محظوظ ہوتے ہوئے اور کہاکہ ہم ہندوستانی ہر اُس مقام کو مقدس تصور کرتے ہیں جہاں پانی ہوتا ہے۔ یوسف مہر علی کو والفے نے برطانوی نوآبادکاری کا کٹر مخالف پایا (یہ پہلے دورہ امریکہ کی بات ہے) جبکہ 1946ء میں اپنے دوسرے دورہ امریکہ کے موقع پر یوسف مہر علی نے واضح کیاکہ ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے جلد آزاد ہوجائے گا اور ایک سال بعد ایسا ہی ہوا۔ والفے کے مطابق مہر علی نے انگریزوں کے نظام انصاف کی بھی تعریف کی تھی اور کہا تھا کہ انگریزوں کے زیرتسلط جیلوں میں ہمیں کتابیں دی جاتی تھیں، اگر ہٹلر یا اسٹالن کی جیلوں میں ہوتے تو فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کردیا جاتا۔ گاندھی اگر سویٹ یونین کی تحویل میں ہوتے تو وہ ہمیشہ کے لئے غائب ہوجاتے، اپنے پہلے احتجاجی لفظ کے ساتھ ہی۔ کانگریس سوشلسٹ پارٹی کے ان کے ایک دوست اچپوت پٹو رومنی نے یوسف مہر علی کے بارے میں لکھا کہ وہ ایک عظیم انسان تھے۔