یہ وہ بچے ہیں جو ماں باپ سے پالے نہ گئے

   

محمد مصطفی علی سروری
محمد عنیق کے والد اسمٰعیل بن عباس کے دوہی بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا دونوں پائوں کمزور ہونے کی وجہ سے معذور ہے جبکہ دوسرا بیٹا عنیق گائوں کے اسکول کو جاتا ہے اور جب بھی وقت ملتا ہے اپنے باپ کا کام میں ہاتھ بٹاتا ہے۔اسمٰعیل نے خود چونکہ زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی اس لیے وہ اپنے گذر بسر کے لیے کھیتوں میں کام کرتا تھا اور بکریوں کو پالا کرتا تھا۔ عنیق اپنے والد کا ہاتھ انہی کاموں میں بٹاتا تھا۔ اسمٰعیل چاہتا تھا کہ عنیق گائوں کے اسکول میں نہیں بلکہ شہر کے اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کرے لیکن اسمٰعیل کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنے بچے کو کسی بڑے اسکول میں بھیج سکے۔ عنیق جس اسکول میں پڑھتا تھا وہاں پر اس کو پتہ چلا کہ اگر وہ اچھے مارکس حاصل کرے تو اس کے لیے آگے پڑھنے کا راستہ بن سکتا ہے تو اس نے آگے پڑھنے کا فیصلہ کرلیا اور خوب محنت شروع کردی۔ اسکول میں پڑھائی کرنا اور خالی وقت میں گھر آکر والدین کا ہاتھ بٹانا۔ دوسرے لڑکے کھیل کود میں رہتے تھے اور عنیق کھیتوں میں اپنے والد کے ساتھ کام کرتا اور بکریوں کی نگہداشت کرتا۔ عنیق کی محنت نے رنگ دکھایا اور اس نے بارہویں جماعت میں شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے بہترین رینک حاصل کیااور عنیق کی خوشی کی انتہاء اس وقت نہیں رہی جب اس کی شاندار تعلیمی کارکردگی کی بنیادوں پر اس کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لندن کے ایک کالج میں اسکالر شپ کے ساتھ داخلہ مل گیا۔

محمد عنیق نے لندن جاکر اکائونٹس میں گریجویشن کے لیے داخلہ تو لے لیا لیکن ساتھ ہی عنیق نے پارٹ ٹائم میں کام کرنا بھی شروع کردیا۔ اس نوکری کے لیے عنیق کو صبح 4 بجے اٹھنا پڑتا تھا اور سائیکل چلاکر 5 بجے تک کام کی جگہ پر پہنچنا ہوتا تھا۔ عنیق کو تو اسکالر شپ پر پڑھنے کے لیے لندن بھیجا گیا تھا لیکن عنیق نے وہاں پر کام کس لیے شروع کیا اس کے متعلق www.malaymail.com نے 25؍ جولائی 2019کو ایک رپورٹ میں لکھا کہ عنیق اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن ضرور گیا تھا لیکن اس کا دل ہر وقت اپنے ماں باپ کے لیے دھڑکتا تھا جو گائوں میں کھیتی باڑی کر کے اپنی زندگی گزار رہے تھے۔ عنیق کو ہمیشہ یہ بات ذہن میں ستاتی تھی کہ اس نے تو اپنی زندگی میں ایروپلین (طیارے) میں سفر کرلیا ہے لیکن اس کے ماں باپ اپنی پوری زندگی میں طیارے میں بیٹھنے کے بارے میں سونچ بھی نہیں سکتے تھے۔ لیکن عنیق نے لندن پہنچنے کے بعد جب معلوم کیا کہ ایک اسٹوڈنٹ کو پارٹ ٹائم میں کام کرنے کی اجازت ہے تو اس نے طئے کرلیا کہ وہ کام کرے گا اور اتنے پیسے جمع کرے گا اس کے ماں باپ بھی طیارے میں ایک مرتبہ تو ضرور بیٹھ سکیں۔

بی اے کی پوری تعلیم کے دوران عنیق نے ہر روز صبح چار بجے اٹھ جاتا تاکہ روزانہ دو گھنٹے کام کر کے پورے ہفتے کے دوران 100 پونڈ جمع کرسکے۔ پورے تین برسوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور جولائی 2019 کے دوران جب برطانیہ کی Essex یونیورسٹی کے کانووکیشن میں محمد عنیق کو گریجویشن کی ڈگری دی جارہی تھی تو اس وقت اس کے والدین اسمٰعیل بن عباس اور والدہ نورما بنتی عبداللہ بھی وہاں موجود تھے۔
محمد عنیق نے اپنی تعلیم و تربیت کے لیے ماں باپ کی قربانیوں کو ہمیشہ ملحوظ رکھا اور اب لندن سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے عنیق نے واپس اپنے وطن ملیشیا جاکر وہاں پر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ (بحوالہ Malaymail.com ۔ 25؍
جولائی کی رپورٹ)

قارئین آپ حضرات پوری تفصیلات پڑھنے کے بعد سونچ رہے ہوں گے کہ ارے سب اچھا تھا مگر یہ تو ملیشیا کے ایک نوجوان کی کہانی ہے۔ پڑھنے میں بھی اچھی لگی مگر ہم تو ہندوستانی ہیں نا؟
کے پی اجیت کی عمر 30 برس ہے۔ کیرالہ کے اس نوجوان نے ٹی ای ملیالم یونیورسٹی سے اپنا ڈاکٹریٹ کا کورس مکمل کیا۔ اس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے اس پہلے نوجوان سے میڈیا کے کئی لوگوں نے انٹرویوز لیے۔ ایسا ہی ایک انٹرویو ٹی این ایم نے لیا۔ ہر ایک کے لیے یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اجیت نے کیسے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ کیونکہ اجیت کے لیے زندگی کا ہر لمحہ آزمائش تھا۔ اس دنیا میں آنکھیں کھولے اجیت کو بمشکل تین ماہ ہوئے تھے کہ اس کے باپ نے ماں کو طلاق دے دی۔ اجیت کی ماں نے دوسری شادی کرنے کے بجائے اپنی زندگی اجیت کے لیے وقف کردی۔ اجیت جس گھر میں رہتا تھا وہاں پر نہ تو لائٹ کی روشنی تھی اور نہ ہی نل کا پانی۔ اجیت کی ماں انناس کے کھیتوں میں کام کر کے گذارہ کا سامان پیدا کرتی تو اجیت نے جب ہوش سنبھالا تو ماں کا ہاتھ بٹانے کے لیے مچھلیاں فروخت کرنے کا کام شروع کیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب اجیت آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا تو اس کو درختوں پر چڑھنے میں مہارت حاصل ہوگئی تھی۔ لوگ دور دور سے آکر اجیت کو اپنے جھاڑوں پر چڑھنے کے لیے بلانے لگے تھے تاکہ وہ ان کے لیے ناریل اور دیگر پھل توڑ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اجیت نے مچھلیاں فروخت کرنا شروع کردیا اور روزانہ 100 سے دیڑھ سو روپئے کماکر اپنی ماں کو لے جاکر دیتا تھا۔ اجیت نے تعلیم سے دوری اختیار نہیں کی اور درمیان میں وقفہ آجانے کے بعد دوبارہ اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھا۔ یوں پہلے بی اے پاس کیا۔ ساتھ میں مسلسل آٹو چلاتا رہا تاکہ گھر کا خرچ بھی اٹھاسکے اور آج بھی جب وہ اپنا پی ایچ ڈی مکمل کرچکا ہے بدستور آٹو چلا رہا ہے تاکہ اپنی ماں کا ہاتھ بٹاسکے۔ اجیت نے یو جی سی کا NET امتحان بھی پاس کرلیا۔ اجیت آگے چل کر کسی کالج یا یونیورسٹی میں ٹیچر کی نوکری حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ تو کیرالا کے اجیت کی کہانی ہے کہ محنت کرنے اور آٹو چلانے کے ساتھ ساتھ اس نوجوان نے پی ایچ ڈی کی تعلیم بھی حاصل کی۔
قارئین اکثر مجھے بعض ای میل آتے ہیں کہ صاحب آپ تو بڑے بڑے قصے کہانیاں لکھتے ہیں لیکن ہم تو پڑھائی کرنے کے بعد بھی بے روزگار ہیں اور ہمیں نوکری ہی نہیں مل رہی ہے۔ آپ اس پر کچھ کیوں نہیں لکھتے ہیں؟
قارئین میں اب ملیشیا اور کیرالہ کی مثال نہیں دونگا بلکہ حیدرآباد سے ہی 20 کلومیٹر دور واقع گنڈلا پوچم پلی کی مثال دوں گا، جہاں ایک اسکول میں اپنے بچوں کو چھوڑنے کے بعد مایا وویک اور منال ڈالمیا نام کی دو مائیں آپس میں مشورہ کر کے ایک ایسا کاروبار شروع کرتی ہیں جسے سننے اور دیکھنے والے دنگ رہ گئے کہ ارے یہ کیا، کچرے کا بھی کاروبار ہوسکتا ہے کیا؟
جی ہاں۔ ان دو خواتین نے مل کر کچرے میں پھینکے جانے والے پھول کے کچرے کو Re-cycle کر کے اس سے کارآمد چیزیں بناکر بیچنے کا کاروبار شروع کیا۔ تفصیلات کے مطابق دسمبر 2018 سے ان دو عورتوں نے مل کر طئے کیا کہ وہ شہر کے مختلف منادر میں جمع ہونے والے پھولوں کے کچرے کو جمع کر کے اس سے اگر بتی، صابن اور دیگر چیزیں بنانا شروع کریں گی۔ اس کام کے لیے انہوں نے مندروں میں پھولوں کا کچرا جمع کرنے کے لیے الگ سے Dust Bin فراہم کیے۔ آج چھ مہینوں میں ہی Holy waste نام کے اس پرجیکٹ میں مندروں کے علاوہ مختلف تقاریب میں استعمال کے بعد پھینک دیئے جانے والے پھولوں کو جمع کر کے لایا جارہا ہے۔ کچرے میں سے پھولوں کے پتوں کو الگ کر کے انہیں سکھانا، پھر اس کے ذریعہ سے پائوڈر اور اس پائوڈر سے مختلف مصنوعات بنانے کا کام کیا جارہا ہے۔ آج صرف چھ مہینوں کے کے بعد اس پراجیکٹ کے لیے روزانہ تقریباً 300 کلو پھولوں کا کچرا جمع ہورہا ہے۔
اس کچرے کو الگ کرنے 10 عورتیں کام کر رہی ہیں۔ پھولوں کے ساتھ آنے والے تمام طرح کے کچرے کو الگ کیا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ پھولوں کی ڈالیوں اور ٹہنیوں کو بھی کھاد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور پھول کی پتیوں سے بننے والے کچرے سے اگر بتی اور صابن بنائے جارہے ہیں اور ان صابنوں کی قیمت جان کر آپ حضرات کو تعجب ہوگا۔ ایک صابن 100 روپئے سے لے کر 170 روپئے میں فروخت ہو رہا ہے اور 30 اگر بتیوں کا ایک پیاکٹ بھی 100 روپئے کے حساب سے مارکٹ میں فروخت ہو رہا ہے۔ پھولوں کے ساتھ ملنے والے کپڑوں سے بھی کچھ نہ کچھ بنانے کا کام لیا جارہا ہے۔
ان عورتوں کا کہنا ہے کہ اب وہ چاہتی ہیں کہ اپنی مصنوعات Online فروخت کریں۔
قارئین جب انسان کے اندر چاہت پیدا ہوجاتی ہے تو وہ کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے آمادہ ہوتا ہے اور آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ دونوں خواتین کی دوستی اس وقت ہوئی جب دونوں اپنے بچوں کے اسکول کے باہر ملتی ہیں اور پھر آگے چل کر کام کرنے اور کچھ نہ کچھ کرنے کا جذبہ ان کو آگے بڑھنے کی توانائی فراہم کرتا ہے۔ کیا ان سے بھی کچھ نہیں سیکھا جاسکتا ہے۔
لیکن اپنی ہی اولاد کی تربیت سے ہم مسلمانوں کی غفلت کا عالم کیا بتلائوں 5؍ اگست 2019ء کو 65 سال کی ایک بزرگ بیوہ خاتون جو نامپلی کے علاقے میں رہتی ہیں۔ اپنے علاقے کے پولیس اسٹیشن میں ایک شکایت درج کروائی ہے کہ 19 سال کے ایک نوجوان نے اس کو ایک معمولی بات پر مارپیٹ کا نشانہ بنایا۔ جس کی وجہ سے اس خاتون کا بایاں ہاتھ زخمی ہوگیا۔ قارئین دل کو سب سے زیادہ تکلیف اس وقت ہوتی ہے کہ بزرگ بیوہ خاتون نے جس 19 سال کے نوجوان کے خلاف حملہ کرنے کی شکایت درج کی وہ کوئی اور نہیں بلکہ اسی کا پوترا ہے۔ اس کی شکایت پر حبیب نگر پی ایس نے کیس درج کر کے تحقیقات کا آغاز کیا۔ 19 سالہ نوجوان کو گرفتار کر کے سکنڈ اسپیشل میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا جہاں پر اسے ایک مہینے کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔
قارئین ہمیں اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر اللہ رب العزت اور اس کے پیارے نبیؐ کی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہم اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے تیار ہیں۔ ذرا سونچیے گا ۔ غور کیجیے گا۔ قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے یہ صلاحیت چھین لے۔ بقول شاعر
اشک غم دیدۂ پرنم سے سنبھالے نہ گئے
یہ وہ بچے ہیں جو ماں باپ سے پالے نہ گئے
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]