یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا

,

   

کشمیر لہو لہو …آخر کس کی نظر لگ گئی
دہشت گردی … ملک کو مودی حکومت کے ایکشن کا انتظار

رشیدالدین
کشمیر کو آخر کس کی نظر لگ گئی۔ کشمیر جسے جنت ارضی کہا جاتا ہے اُسے انسانیت کے دشمنوں نے لہو لہان کردیا ہے۔ کشمیر کے امن اور کشمیری عوام کی خوشحالی کے دشمن آخر کون ہیں؟ پہلگام میں بے گناہوں کے قتل عام کے ذریعہ ہندوستان کے دشمنوں نے ایک نیا چیلنج دیا ہے اور وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہندوستان کس دم خم کے ساتھ جواب دے گا۔ کشمیر میں کئی دہوں بعد امن بحال ہوا اور سیاحت کے شعبہ نے دوبارہ ترقی کی جس کے نتیجہ میں کشمیریوں کی معاشی صورتحال بھی بہتر ہورہی تھی۔ کشمیر جس کے نام سے لوگ گھبراتے تھے آج وہ اپنی عظمتِ رفتہ کو بحال کرتے ہوئے تمام ہندوستانیوں کا دِل جیتنے کی کوشش کررہا تھا کہ اچانک دہشت گردوں نے پہلگام میں انسانیت سوز اور بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاحوں کو نشانہ بنایا۔ وہ کشمیری نوجوان جس نے مزاحمت کی وہ بھی دہشت گردوں کی گولی کا شکار ہوگیا۔ کشمیر دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے توجہ کا مرکز بن چکا تھا۔ سیاحت کے فروغ سے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور تجارت کو نئی جہت ملی تھی لیکن کشمیریوں کی خوشحالی اور وادی میں امن و امان برداشت نہیں ہوئی اور پاکستان نواز دہشت گردوں نے بزدلانہ کارروائی کے ذریعہ ہندوستانیوں بالخصوص کشمیریوں کے حوصلوں کو پست کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ پہلگام واقعہ نے ساری دنیا کو مغموم کردیا ہے۔ ہر امن پسند اور جمہوریت پسند ملک نے حملہ کی نہ صرف مذمت کی بلکہ دُکھ اور غم کی اِس گھڑی میں ہندوستانی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر سارے ملک نے حکومت ہند کی ہر کارروائی میں ساتھ کھڑے ہونے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ کُل جماعتی اجلاس میں عملی مظاہرہ کیا۔ دہشت گرد کارروائی پر اپنی سیاسی روٹیاں سیکنے کے بجائے تمام اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت کے ہر فیصلے کی تائید کی۔ دنیا کو یہ پیام دیا گیا کہ ملک پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو سیاست کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ ہندوستان کی اِسی خوبی اور خوبصورتی کو ’’کثرت میں وحدت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ پہلگام دہشت گرد حملہ کی مذمت کے لئے الفاظ تک نہیں ہیں وہ اِس لئے کہ دہشت گردوں نے ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی شناخت کرتے ہوئے نشانہ بنایا تاکہ اسلام اور اُس کی تعلیمات کو داغدار کیا جاسکے۔ کوئی بھی مذہب دہشت گردی کی ہرگز تائید نہیں کرتا۔ جہاں تک اسلام کا معاملہ ہے دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام نے تو ایک بے قصور کے قتل کو انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہاکہ جس مذہب نے پانی کے بیجا خرچ کی اجازت نہیں وہ انسانیت کا خون بہانے کی اجازت کیسے دے گا۔ دہشت گردی، انتہا پسندی اور جرائم کا کسی مذہب سے لینا دینا نہیں بلکہ یہ خالصتاً دہشت گرد، انتہا پسند اور مجرم کی حیثیت سے سماج کے دشمن ہوتے ہیں۔ دہشت گرد حملہ کی مذمت میں ملک کے مسلمان دیگر ابنائے وطن کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملاکر لڑائی میں شریک ہیں۔ اسلام کی تعلیمات کے تحت دنیا کے کسی بھی گوشہ میں کسی پر ظلم ہوتا ہے تو اُس کا درد مسلمان محسوس کرتے ہیں۔ افسوس کہ مصیبت اور غم کی اِس گھڑی میں بھی بعض گوشوں کی جانب سے واقعہ کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور قتل و غارت گری اُس کا ایمان ہوتا ہے۔ پہلگام واقعہ کے ساتھ ہی بی جے پی اور سنگھ پریوار کے نفرتی عناصر نے حملہ کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی تاکہ عام ذہنوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑکائے جائیں۔ گودی میڈیا کا رول بھی انتہائی شرمناک رہا اور بی جے پی کے چاٹوکار اینکرس مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف رہے۔ ایسے ویڈیوز کو بار بار پیش کیا گیا جس میں مذہب پوچھ کر حملہ کی باتیں کہی گئیں۔ گودی میڈیا نے اُس کشمیری نوجوان عادل حسین شاہ کی بہادری کا کوئی ذکر نہیں کیا جس نے دہشت گردوں سے بندوق چھین لی اور سیاحوں پر فائرنگ سے روکنے کے لئے خود ڈھال بن گیا لیکن اِس مزاحمت کے نتیجہ میں عادل حسین شاہ کو اپنی جان گنوانی پڑی۔ حملہ میں بچ جانے والوں میں نزاکت خان کی بہادری کا بھی ذکر کیا ہے جس نے فائرنگ کے ساتھ ہی 4 خاندانوں کو محفوظ مقام منتقل کرتے ہوئے اُن کی جان بچائی۔ عادل حسین شاہ اور نزاکت خان نے یہ نہیں دیکھا کہ سیاح کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ کشمیری عوام کے بارے میں غلط فہمی پیدا کرنے والے پہلے پہلگام میں موجود سیاحوں کے تاثرات کی سماعت کریں جنھوں نے یہاں تک کہاکہ وہ کشمیری بھائیوں کے پاس محفوظ ہیں۔ کئی ہندو خاندانوں نے کشمیری عوام کی مہمان نوازی کا اعتراف کیا۔ اِس طرح کے ویڈیوز بھی سوشل میڈیا میں وائرل ہوئے لیکن گودی میڈیا کو نفرت کے پرچار سے فرصت نہیں ہے۔ گودی میڈیا کے اینکرس اور سنگھ پریوار کے نفرتی بریگیڈ کو جان لینا چاہئے کہ جتنے یہ ہندوستانی ہیں، کشمیری عوام بھی ہندوستانی ہیں۔ ہندوستان سے محبت کے معاملہ میں گودی میڈیا اور سنگھ پریوار سے زیادہ کشمیریوں کی محبت کا قائل ہونا پڑے گا کیوں کہ 1947 ء میں پاکستان جانے کی سہولت کے باوجود اُن کے آباء و اجداد نے ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دی اور اِسے اپنا وطن تسلیم کیا۔ اِسی لئے کہا جاتا ہے کہ ملک میں مسلمان ’’By Choice‘‘ ہندوستانی ہیں جبکہ دوسرے ’’By Chance‘‘ کیوں کہ اُن کے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں تھا۔
مودی حکومت نے پہلی مرتبہ پہلگام واقعہ پر سکیورٹی کوتاہی کو تسلیم کیا ہے۔ کُل جماعتی اجلاس میں حکومت نے مانا کہ پہلگام میں سکیورٹی میں کمی کے نتیجہ میں دہشت گردوں کو حملہ کا موقع مل گیا۔ اطلاعات کے مطابق پہلگام اور اُس کے اطراف تقریباً 5 کیلو میٹر تک سکیورٹی کا کوئی نظم نہیں تھا حالانکہ پہلگام کشمیر کا وہ سیاحتی مرکز ہے جہاں سب سے زیادہ سیاح پہونچتے ہیں۔ جس وقت حملہ ہوا تقریباً 3 ہزار سیاح موجود تھے لیکن علاقہ کی سکیورٹی کے لئے فوج تو دور کی بات ہے مقامی پولیس کا ایک جوان بھی نظر نہیں آیا۔ سکیورٹی کوتاہی کے ساتھ ساتھ انٹلی جنس کی ناکامی بھی اہم سوال ہے۔ اِس معاملہ میں وزیراعظم سے زیادہ وزیرداخلہ امیت شاہ کو اخلاقی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔ حکومت سرحدوں کے محفوظ ہونے کے بلند بانگ دعوے کرتی ہے لیکن پاکستان سے دہشت گرد تفریح کے انداز میں آئے اور کارروائیوں کے بعد مبینہ طور پر واپس ہوگئے۔ ہندوستانی فوج کے ریٹائرڈ میجر جنرل بخشی نے انکشاف کیاکہ کورونا وباء کے بعد سے فوج میں بھرتی نہیں کی گئی اور 1.80 لاکھ تعداد کم ہوگئی۔ فوج کو کمزور کرنے کے لئے مودی حکومت ذمہ دار ہے لیکن اِس بارے میں حکومت نے کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔ ہندوستان نے دہشت گرد حملہ کے بعد پاکستان کے خلاف بعض اقدامات کا اعلان کیا ہے لیکن ملک کے عوام کو زبانی اور کان خوش کرنے والے اعلانات سے زیادہ کارروائی کا انتظار ہے۔ دیش بھکتی کے نعرے صرف زبان تک محدود رہیں تو پھر کارروائی کا جذبہ کیسے پیدا ہوگا۔ حد تو یہ ہوگئی کہ کشمیر میں ہزاروں سیاحوں کی حفاظت کرنے والے کشمیریوں کے بچوں کو مختلف ریاستوں میں نشانہ بنایا جارہا ہے جو تعلیم کے حصول کے لئے آئے ہیں۔ نریندر مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کا جائزہ لیا جائے تو سنجیدگی سے زیادہ ضابطہ کی تکمیل دکھائی دے گی۔ مودی برسر اقتدار آتے ہی پٹھان کورٹ ایئربیس پر حملہ ہوا تھا اور نریندر مودی نے وزیراعظم کی حیثیت سے دہلی میں نہیں بلکہ میسور کے ایک جلسہ عام میں پاکستان کو جوابی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ ٹھیک اُسی طرح پہلگام واقعہ کے بعد مودی نے قوم سے خطاب نہیں کیا بلکہ بہار میں انتخابی ریالی کے ذریعہ دہشت گردوں اور اُن کی سرپرستی کرنے والوں کی کمر توڑنے کی دھمکی دی۔ ایسے وقت جبکہ سارا ملک غم میں ڈوبا ہوا ہے اور مہلوکین کے پسماندگان کے آنسو تھمے نہیں ہیں لیکن نریندر مودی نے بہار میں انتخابی ریالی کو ترجیح دی۔ پٹھان کورٹ کے بعد یوری میں دہشت گرد حملہ ہوا، پھر پلوامہ میں فوجی قافلہ کو نشانہ بنایا گیا۔ اِن تینوں واقعات کے بعد نریندر مودی حکومت نے وہی اعلانات کئے تھے جوکہ پہلگام کے بعد دوہرائے گئے ہیں۔ پٹھان کورٹ سے لے کر پہلگام تک کردار وہی ہیں اور اعلانات بھی رسمی انداز کے کئے جاتے رہے جن پر عمل آوری دکھائی نہیں دی۔ بہار کی ریالی میں انگریزی زبان میں چند الفاظ ادا کرتے ہوئے نریندر مودی نے دنیا کو پیام دینے کی کوشش کی حالانکہ یہ دہشت گرد حملہ ہندوستان کی سالمیت کو چیلنج کی طرح ہے لہذا کسی ملک سے ہمدردی بٹورنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ہندوستان اپنے طور پر کارروائی کرسکتا ہے۔ انگریزی الفاظ کے استعمال کے ذریعہ نہ صرف دُنیا بلکہ پاکستان پر رعب قائم نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستانی مشن کو بند کرنے کے بجائے ہمیشہ صرف تعداد کم کی گئی۔ سابق کے 3 واقعات میں بھی سفارتی عملہ کو کم کیا گیا تھا لیکن پھر وہ کس طرح بحال ہوگئے۔ سندھ آبی معاہدہ کو سابق میں بھی معطل کرنے کا اعلان کیا جاچکا ہے لیکن پاکستان کو پانی روکا نہیں جاسکا۔ ہندوستان نے سارک ویزا کی اجرائی کو بند کردیا ہے جبکہ دوسرے ویزے کھلے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پٹھان کورٹ، یوری، پلوامہ اور پھر پہلگام تک دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں حکومت کس حد تک سنجیدہ ہے۔ پٹھان کورٹ کے 9 سال بعد کردار وہی ہیں اور فیصلے بھی وہی ادھورے دکھائی دے رہے ہیں۔ قوم کی ناراضگی کو کم کرنے کیلئے اس طرح کے اعلانات کئے جاتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام بھی اِس غم کو بھلاکر حکومت کے اعلانات کے بارے میں سوال نہیں کرتے۔ مبصرین کے مطابق دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں حکومت سنجیدگی کے زیادہ سیاسی مجبوری کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔ قوم کو مطمئن کرنے کے لئے ادھورے اور سابق کی طرح اعلانات کے بجائے ایکشن دکھائی دینا چاہئے۔ محسن نقوی نے کیا خوب کہا ہے ؎
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کرکے