شیشہ و تیشہ
محمد شمس اللہ شمسؔریل گھر …!!کچھ ریل گھر کا حال کروں مختصر سا بیانوہ نو بجے کا آنا ، بار بار انجن کی سیٹیاںشمسؔ مسافروں کی بھی اک دھوم دھام
محمد شمس اللہ شمسؔریل گھر …!!کچھ ریل گھر کا حال کروں مختصر سا بیانوہ نو بجے کا آنا ، بار بار انجن کی سیٹیاںشمسؔ مسافروں کی بھی اک دھوم دھام
سلطان قمرالدین خسروؔاحتراماًیہ لغزش احتراماً ہوگئی تھیجوانی کو بڑھاپا کہہ دیا تھاوہ بی بی آج تک ہم سے خفا ہےجسے بھولے سے ’’آپا‘‘ کہہ دیا تھا…………………………شاہد ریاض شاہدؔنیا سال مبارکلو
شاہد ریاض شاہدؔیہ سال بھی !مسئلے تو پچھلے سال کے اپنی جگہ رہےسب سوچتے رہے کہ نیا سال آ گیاخوشیاں جو بانٹتا تو کوئی نئی بات تھیگزرا ہوا یہ سال
طالب خوندمیرینیا سال!آنا تھا جسے ، وہ تو بہرحال آیااندیشے کئی دِل میں نئے ڈال آیاارزانیاں پہلے ہی سے پژمردہ تھیںمہنگائیاں خوش ہیں کہ نیا سال آیا…………………………پاپولر میرٹھیسال بھر بعد
چھورا چھوری …!!دکن کے مایہ ناز شاعر سلیمان خطیبؔ کی اس ماہ یوم پیدائش ( 26 دسمبر 1922) کی مناسبت سے اُن کی مایہ ناز نظم ’’چھورا چھوری‘‘سلسلہ وار پیش
چھورا چھوری …!!دکن کے مایہ ناز شاعر سلیمان خطیبؔ کی اس ماہ یوم پیدائش ( 26 دسمبر 1922) کی مناسبت سے اُن کی مایہ ناز نظم ’’چھورا چھوری‘‘سلسلہ وار پیش
چھورا چھوڑی …!!دکن کے مایہ ناز شاعر سلیمان خطیبؔ کی اس ماہ یوم پیدائش ( 26 دسمبر 1922) کی مناسبت سے اُن کی مایہ ناز نظم ’’چھورا چھوری‘‘سلسلہ وار پیش
امیرؔ الاسلام ہاشمیفائدہ در فائدہپوچھا یہ اک طبیب نے اپنے مریض سےمیری دوا سے فائدہ کتنا ہے آپ کوہنس کے مریض بولا کہ بہتر تو ہوں مگراتنا نہیں ہے فائدہ
دلاور فگارؔعجیب و غریب بیوی…!بیوی سے ایک شوہر ناکام نے کہاہم ہر معاملے میں بڑے بدنصیب ہیںہم نے غریب جان کے مانگا تھا آپ کویہ کیا خبر تھی آپ عجیب
خیالؔ کانپوریاچھے دن …!!اچھے دن کے دیکھو حالایک سو چالیس میں ہے دالچھوٹے تو تھے ہی کنگالبڑے بڑے ہوئے بد حالپیاز کی مت پوچھو چالستّر تک پہونچی فی الحالدھنیا مرچے
سرفراز شاہدنہلے پہ دہلادیکھا جو زلف یار میںکاغذ کاایک پھولمیںکوٹ میں گلاب لگاکر چلا گیاپوڈر لگاکے چہرے پہ آئے وہ میرے گھرمیں ان کے گھر خضاب لگاکر چلا گیا…………………………مزمل گلریزؔتوبہ
پاپولر میرٹھیخیر سے !آپ نے صورتِ احوال اگر پوچھی ہےہم بڑی موج میں ہیں آپ کو بتلاتے ہیںایسی برکت ہے کبھی گھر نہیں رہتا خالیکچھ نہ ہو گھر میں تو
انور مسعوددردِ دلدل کی بیماری کے اِک ماہر سے پوچھا میں نے کلیہ مرض لگتا ہے کیوں کر آدمی کی جان کوڈاکٹر صاحب نے فرمایا توقف کے بغیر’’دردِ دل کے
پاپولر میرٹھیپھر فیل !اس مرتبہ بھی آئے ہیں نمبر تیرے تو کمرسوائیوں کا میری دفتر بنے گا توبیٹے کے سر پہ دیکے چپت باپ نے کہاپھر فیل ہوگیا ہے منسٹر
انور مسعودگیسجو چوٹ بھی لگی ہے وہ پہلے سے بڑھ کے تھیہر ضربِ کربناک پہ میں تِلمِلا اُٹھاپانی کا، رسوئی گیس کا، بجلی کا، فون کابِل اتنے مِل گئے ہیں
حسن عسکریمزاحیہ غزل ( بی پی )اچھّے اچھوں کو بھی بستر پر لٹادیتا ہے بی پیبڑھ جائے یا کم ہو تو رُلا دیتا ہے بی پیباتیں کوئی ٹنشن کی کرے
انور مسعودکسوٹیہر شخص کو زبانِ فرنگی کے باٹ سےجو شخص تولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمیافسر کو آج تک یہ خبر ہی نہیں ہوئیاْردو جو بولتا ہے سو ہے
انور مسعودقوم کے خادممریض کتنے تڑپتے ہیں ایمبولینسوں میںان کا حال ہے ایسا کہ مرنے والے ہیںمگر پولیس نے ٹریفک کو روک رکھا ہےیہاں سے قوم کے خادم گزرنے والے
پاپولر میرٹھیہوشیار ہوجاؤ…!کسی جلسے میں ایک لیڈر نے یہ اعلان فرمایاہمارے منتری آنے کو ہیں بیدار ہو جاؤیکایک فلم کا نغمہ کہیں سے گونج اْٹھا تھا’’وطن کی آبرو خطرے میں
انور مسعودترکی بہ ترکیاپنی زوجہ سے کہا اِک مولوی نے نیک بختتیری تْربت پہ لکھیں تحریر کس مفہوم کیاہلیہ بولی عبارت سب سے موزوں ہے یہیدفن ہے بیوہ یہاں پر