شیشہ و تیشہ
انور مسعوددردِ دلدل کی بیماری کے اِک ماہر سے پوچھا میں نے کلیہ مرض لگتا ہے کیوں کر آدمی کی جان کوڈاکٹر صاحب نے فرمایا توقف کے بغیر’’دردِ دل کے
انور مسعوددردِ دلدل کی بیماری کے اِک ماہر سے پوچھا میں نے کلیہ مرض لگتا ہے کیوں کر آدمی کی جان کوڈاکٹر صاحب نے فرمایا توقف کے بغیر’’دردِ دل کے
پاپولر میرٹھیپھر فیل !اس مرتبہ بھی آئے ہیں نمبر تیرے تو کمرسوائیوں کا میری دفتر بنے گا توبیٹے کے سر پہ دیکے چپت باپ نے کہاپھر فیل ہوگیا ہے منسٹر
انور مسعودگیسجو چوٹ بھی لگی ہے وہ پہلے سے بڑھ کے تھیہر ضربِ کربناک پہ میں تِلمِلا اُٹھاپانی کا، رسوئی گیس کا، بجلی کا، فون کابِل اتنے مِل گئے ہیں
حسن عسکریمزاحیہ غزل ( بی پی )اچھّے اچھوں کو بھی بستر پر لٹادیتا ہے بی پیبڑھ جائے یا کم ہو تو رُلا دیتا ہے بی پیباتیں کوئی ٹنشن کی کرے
انور مسعودکسوٹیہر شخص کو زبانِ فرنگی کے باٹ سےجو شخص تولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمیافسر کو آج تک یہ خبر ہی نہیں ہوئیاْردو جو بولتا ہے سو ہے
انور مسعودقوم کے خادممریض کتنے تڑپتے ہیں ایمبولینسوں میںان کا حال ہے ایسا کہ مرنے والے ہیںمگر پولیس نے ٹریفک کو روک رکھا ہےیہاں سے قوم کے خادم گزرنے والے
پاپولر میرٹھیہوشیار ہوجاؤ…!کسی جلسے میں ایک لیڈر نے یہ اعلان فرمایاہمارے منتری آنے کو ہیں بیدار ہو جاؤیکایک فلم کا نغمہ کہیں سے گونج اْٹھا تھا’’وطن کی آبرو خطرے میں
انور مسعودترکی بہ ترکیاپنی زوجہ سے کہا اِک مولوی نے نیک بختتیری تْربت پہ لکھیں تحریر کس مفہوم کیاہلیہ بولی عبارت سب سے موزوں ہے یہیدفن ہے بیوہ یہاں پر
پاپولر میرٹھیکچھ پتہ نہیںنفرت کا سلسلہ تھا مجھے کچھ پتا نہیںکس بات کا گلہ تھا مجھے کچھ پتا نہیںاتنا تو یاد ہے تیرے ڈیڈی ملے تھے کلڈنڈا کہاں پڑا تھا
انور مسعودبُوفےتوانائی ہے اور پھرتی ہے جس کے دست و بازو میںپلیٹ اُس کی ہے، چمچہ اُس کا ہے، ڈونگا اُسی کا ہےیہ بُوفے ہے یہاں کوتاہ دستی میں ہے
یاور علی محورؔگاڑی چلارہے ہیں…!جان لیوا حادثوں کو آسان سمجھ سمجھ کرچالاک خود کو سب کو ناداں سمجھ سمجھ کراپنی نہ دوسروں کی پرواہ ذرا سڑک پرگاڑی چلارہے ہیں میداںسمجھ
نسیم ٹیکمگڑھیزمانے سے آگے …!آگے نکل گئیں ہیں زمانے سے عورتیںکب تک رہیں گی مرد سے ایسے وہ ہارکربرقع پہن کے مرد ہی نکلا کریں گے ابآزاد عورتیں ہوئیں کپڑے
تجمل اظہرؔتوبہ توبہ …!!شاعری میں بھی غبن توبہ توبہپھر بھی ہے اتنا جتن توبہ توبہمیں انگوٹھا چھاپ ہی ٹہرا نگرآپ استادِ سُخن توبہ توبہ…………………………قاضی ضیاءؔ عالم کوسگویرنج … !!رُسوا ہوئے
تجمل اظہرؔدادا گیری …!!ہم اپنے دور کی وہ شاعری بھی دیکھی ہےکہیں پہ کم تو کہیں برتری بھی دیکھی ہےمگر یہ کیا کہ فقط اپنے نام کی خاطرادب کے نام
نجیب احمد نجیبؔمزاحیہ غزل …!!(دلاور فگار کے مصرعہ پر )برگر پیزا ہو اور چکن لال لال ہو’’کھانے کو قورمہ ہو ، کھلانے کو دال ہو ‘‘سارے جہاں میں دوستی خود
پاپولر میرٹھیپھر فیل …!اس مرتبہ بھی آئے ہیں نمبر تیرے تو کمرسوائیوں کا میری دفتر بنے گا توبیٹے کے سر پہ دیکے چپت باپ نے کہاپھر فیل ہوگیا ہے منسٹر
محمد انیس فاروق انیسؔجو چاہو وہ کرو …!ہے الیکشن کازمانہ جو چاہو وہ کروہو کلکشن کا بہانہ جو چاہو وہ کرویاد رکھو یہ تپتا ہوا صحرا ہے میاںجیت کا گر
دلاور فِگار ؔفقط … !!گرانی، مفلسی، بے روزگاری، قحط، بیمارییہ فتنے کیا ہماری موت کا کاشن نہیں دیتےمگر یہ خوش بیاں لیڈر، یہ ناکارہ سیاست داںفقط بھاشن دیئے جاتے ہیں
انورؔ مسعوداندھیر گردیکچھ نہ پوچھو اُداس ہے کتناکتنا سہما ہوا سا رہتا ہےدل پہ سایہ ہے لوڈ شیڈنگ کا’’شام ہی سے بْجھا سا رہتا ہے‘‘……………………………محمد شفیع مرزا انجمغزل (طنز و
مزمل گلریزؔآج عید ہے … !!دوست دشمن کو گلے لگاؤ آج عید ہےپیو شیر خرما اور پلاؤ آج عید ہےذکر و اذکار ، تلاوت قرآن اور روزےسجدۂ شکر بجا لاؤ