ملے وہ زخم ستم ہائے روزگار کے بعد
زبان کھل نہ سکی چشمِ اشکبار کے بعد
ملک بھر میں آج سمویدھان دیوس ( یوم دستور ) منایا گیا ۔ سرکاری سطح پر بھی ان تقاریب کا اہتمام کیا گیا اور مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے اپنے طور پر مختلف پروگرامس منعقد کئے اور دستور کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ۔ گذشتہ چند مہینوںسے دستور کی اہمیت اور اس کی افادیت کے تعلق سے مختلف گوشوں سے اظہار خیال کیا جا رہا ہے ۔ کہیں دستور خطرہ میں ہونے کی بات کی جا رہی ہے تو کچھ گوشے دستور میں تبدیلی کرنے کی بات تک بھی کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں عوام میں ایک طرح کی غیر یقینی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ حکومت اور اس کے ذمہ داروں کی جانب سے بھی یہ وضاحت ہوتی رہی ہے کہ دستور میں تبدیلی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے باوجود کچھ گوشوں سے ضرور دستور کو نشانہ بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ آج جہاں ہم یوم دستور منا رہے ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ دستور کے تحفظ اور اس کی اہمیت کو اپنے عمل سے ثابت کرنے کی کوشش کریں۔ دستور میں جو کچھ بھی گنجائش فراہم کی گئی ہے اس کے مطابق کام کیا جائے ۔ دستور میں سماج کے جن جن طبقات کو جو جو حقوق دئے گئے ہیں ان حقوق کی پاسداری کی جائے ۔ ان کا احترام کیا جائے اور انہیں پورا کرنے کی کوشش کی جائے ۔د ستور میں عوام پرجو فرائض عائد کئے گئے ہیں ان کو بھی پورا کرنا عوام کی ذمہ داری ہے ۔ ہندوستان کا جو دستور ہے وہ منفرد ہے اور اپنی مثال آپ ہے ۔ اسے دنیا بھر میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ عوام کے نزدیک بھی یہ ایک مقدس اور اہمیت کا حامل دستاویز ہے ۔ اس کی اہمیت اور اس کا احترام ہر ایک کو کرنے کی ضرورت ہے ۔ انتخابات میںسیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے دستور کا جس طرح سے استحصال کیا جا رہا ہے اس کو روکنے کی ضرورت ہے ۔ کئی قائدین ایسے ہیں جو اسی دستور پر ایوان اسمبلی یا پارلیمنٹ میں حلف لیتے ہیں لیکن وہ دستور کو تبدیل کرنے کی بات بھی کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے یا اسے بند کیا جانا چاہئے ۔ دستور کو تبدیل کرنے کی بات کرنے والوںکو نظر انداز نہ کرکے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ۔
ملک کے دستور نے سماج کے ہر طبقہ کو اور ملک میںر ہنے والے ہر مذہب کے ماننے والوں کو مساوی حقوق فراہم کئے ہیں۔ دستور میں جو حقوق دئے گئے ہیںان کو پورا کرنا اور تمام طبقات سے انصاف کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے ۔ تاہم آج ہندوستان میںدیکھا جا رہا ہے کہ دستور کی گنجائش اور انہیںدئے گئے حقوق کے باوجود اقلیتوں کو پوری شدت کے ساتھ نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ دستور کے مطابق ملک میں اقلیتوں کو مذہبی آزادی بھی حاصل ہے اس کے باوجود آج مسلمانوں کی عبادتگاہوں کو منظم اور منصوبہ بند انداز میں نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ حکومتیں بھی اس طرح کے معاملات میںفریق بنتے ہوئے سماج میں نفرت کو ہوا دینے کی ذمہ دار بن رہی ہیں۔ جو عناصر دستوری گنجائش کو تسلیم کرنے تیار نہیں ہیں انہیں سرکاری سرپرستی اور پشت پناہی حاصل ہو رہی ہے ۔ نفاذ قانون کی ایجنسیاں ان کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اس طرح وہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی تکمیل میں بھی بری طرح سے ناکام ہیں۔ ملک میںجس طرح کی صورتحال اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہورہی ہے اس کا واحد اور موثر حل یہی ہے کہ ملک کے دستور پر من و عن اور پوری دیانتداری کے ساتھ عمل کیا جائے ۔ دستوری گنجائش کو سیاسی فائدہ یا سہولت کیلئے توڑ مروڑ کر استعمال نہ کیا جائے اور کسی طرح کی جانبداری کا رویہ اختیار نہ کیا جائے ۔ دستوری اہمیت اور اس کی افادیت کو اجاگر کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے اور اس سے انہیں بری الذمہ نہیں ہونا چاہئے ۔
سمویدھان دیوس کا اہتمام اپنی جگہ ایک اچھی بات ہے ۔ ملک کے عوام کو بھی دستور کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے اس کا مطالعہ کرنا اور اس کو سمجھنا بھی ضروری ہے ۔ اگر ملک کے عوام دستوری حقوق کے تعلق سے باشعور ہونے لگیں تو پھر وہ اپنے حقوق کیلئے بھی جدوجہد کر پائیں گے اور کوئی بھی کسی بھی مقصد کیلئے ان کا استحصال بھی نہیں کر پائے گا ۔ حکومتوں کو اس بات کا عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ دستوری ذمہ داری کی تکمیل میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے اور نہ ہی سماج یا سماج کے کسی بھی طبقہ کے دستوری حقوق کو تلف کرنے کی اجازت دیں گے ۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ ذمہ داری حکومتوں پر ہی عائد ہوتی ہے ۔