آر ٹی سی ملازمین کی خودکشیاں

   

بہت قریب سے خنجر لگا ہے سینے میں
کرے گا کون شبہ اپنے آشناؤں پر
آر ٹی سی ملازمین کی خودکشیاں
کانگریس پارٹی جب تک اقتدار پر رہی قسمت کی دھنی رہی ۔ مگر اقتدار سے باہر ہوتے ہی اس کی قسمت ’ لکیریں ‘ الٹ پلٹ ہوتی جارہی ہیں ۔ وہ بطور اپوزیشن بھی اپنا رول ادا کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے ۔ تلنگانہ میں ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال 10 ویں روز میں داخل ہوئی ۔ کئی ملازمین نے خود کشی کرلی اور ٹی آر ایس حکومت نے تاریخ حکمرانی کی بدترین حکومت کا ثبوت دینا شروع کردیا ہے ۔ عوام کی مایوسی کا عالم یہ ہے کہ وہ اظہار خیال سے بھی گریز کرنے لگے ہیں ۔ اپوزیشن پارٹیوں کے لیے یہ سوچنے کا موقع آگیا ہے کہ آیا وہ اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش کریں یا یوں ہی گمنام ہوجائیں ۔ آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال کو حکومت تلنگانہ کی شان میں گستاخیاں سمجھنے والی ٹی آر ایس قیادت بھی اپنے موقف سے ٹس سے مس نہیں ہورہی ہے ۔ اپوزیشن یہ دریافت کرنے کی جرات ہی نہیں کرپا رہی ہے کہ آیا اس حکومت کا سربراہ ہڑتالی ملازمین کے ساتھ سخت رویہ کیوں اختیار کررہا ہے ۔ ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کے مسائل پر غور کرنے کے بجائے یہ حکومت دھمکیوں پر اتر آئی ہے ۔ اس حکومت میں ازلی اور ابدی حاجت مندوں میں خود حکومت کا سربراہ ہی ہے ۔ اس صاحب اقتدار کو اپنی حاجت ہی پوری کرنے کی فکر ہے ۔ ماباقی کام اس کے لیے ضروری نہیں ہیں ۔ آر ٹی سی ملازمین مرتے ہیں تو مریں ، انہیں کیا لینا دینا ہے ۔ ہڑتالی ملازمین کو یہ سمجھنے میں تاخیر ہورہی ہے کہ اس حکومت کی بدعملی اور بد حکمرانی تمام اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دے گی ۔ سابق حکمرانوں نے سرکاری ملازمین کا خاص خیال رکھا تھا ۔ آر ٹی سی بھی بہتر طور پر کام انجام دے رہی تھی لیکن علحدہ ریاست تلنگانہ کے بعد کرپٹ کا معاملہ زور پکڑنے لگا ۔ ہڑتالی ملازمین کی اموات ، خودکشیوں اور خود سوزیوں کے واقعات کے باوجود حکومت کو ان پر ترس نہیں آرہا ہے ۔ چیف منسٹر کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ ہڑتالی ملازمین کے مسائل ٹھیک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ 5 اکٹوبر سے ہڑتال کرنے والے ملازمین پے رویژن کے علاوہ آر ٹی سی کو حکومت میں ضم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ حکومت کے رویہ کو دیکھتے ہوئے ہڑتال میں شدت پیدا کردی جارہی ہے ۔ 19 اکٹوبر کو تلنگانہ بند کا اعلان حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا گیا ۔ اپوزیشن اس بند کی تائید کررہی ہے ۔ اس ہڑتال کو کمزور کرنے کے لیے حکومت پر الزام ہے کہ اس نے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کا حربہ اختیار کرلیا ہے ۔ کیوں کہ جہاں آر ٹی سی ملازمین کے ساتھ اس کا رویہ سخت ہے تو وہیں سرکاری ملازمین کے لیے حکومت نے حضور آباد اسمبلی انتخابات کے بعد کئی مراعات دینے کے منصوبہ پر عمل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ریاست کے موجودہ حالات اپوزیشن پارٹیوں کے لیے متحد ہونے کا بہترین موقع ہے ۔ خاص کر کانگریس کے لیے یہ موقع آیا ہے کہ وہ ریاست تلنگانہ میں بی جے پی کے بڑھتے قدموں کو روکنے کے لیے اپنا اپوزیشن کا کردار پوری شدت سے ادا کرے ۔ کے سی آر اور ان کی حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کو یہ اطمینان ہے کہ اس کے لیے مشکلات کھڑا کرنے والی اپوزیشن کا وجود ہی نہیں ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ اپوزیشن اپنا رول ادا کرے کیوں کہ ریاست میں صرف ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال کا ایک مسئلہ نہیں ہے بلکہ کے سی آر کے رویہ نے خود حکمراں پارٹی ٹی آر ایس میں ناراضگی پیدا کردی ہے ۔ کے سی آر کے خلاف ان کی ہی پارٹی میں اختلافات ابھر رہے ہیں اور یہ حکمراں پارٹی کی سیاسی صحت کے لیے مناسب بات نہیں ہے ۔ لہذا کے سی آر کو اپنی سیاسی بصیرت و مظاہرہ کرتے ہوئے مسائل حل کرنے اور آر ٹی سی ملازمین کی جانب سے خود کشی کے واقعات کو روکنے کے لیے فوری قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے انہیں فوری ہڑتالی ملازمین کے قائدین سے بات چیت کرنی ہوگی ۔ آر ٹی سی ملازمین کی جانب سے خود کشیوں کے بڑھتے واقعات افسوسناک ہیں ۔ انسانی جانوں کے اتلاف کو روکنا ایک حکمراں کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے ۔۔