آسام میں سابق فوجی کو ”غیر قانونی غیرملکی“ قراردیاگیا’جب میں جیل میں داخل ہوا‘ میں صرف رورہا تھا‘

,

   

مذکورہ گوہائی ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت‘ حکومت آسام اور این آر سی انتظامیہ‘ الیکشن کمیشن آف انڈیا اورآسام پولیس کے سابق افیسر کو ثناء اللہ کے خلاف دئے گئے غیر ملکی ٹریبول کے احکامات کے معاملہ میں کئے گئے چیالنج پر ایک نوٹس جاری کیاہے۔

گوہاٹی۔ محمد ثناء اللہ آسام کے گول پارہ کے تحویلی کیمپ سے 8جون کے روز باہر ائے۔مگر اس روز یہ ہندوستانی فوجی سابق صوبعدار 29مئی کے دن کو کبھی نہیں بھولے گا جب وہ اس مرکز کے اندر ”غیر قانونی غیر ملکی“ کا ٹیگ لے کر گیاتھا۔

گوہائی ہائی کورٹ کی جانب سے ملی عبوری ضمانت کے بعد گوہاٹی کے ساتگاؤں کے اپنے مکان میں انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے انہو ں نے بتایاکہ”جیل کی گیٹ سے اندر جاتے وقت میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے‘ تین دہوں تک اپنے مادر وطن کی خدمت کرنے کے بعد میں نے ایسا کیاگناہ کردیا تھا‘جس میں ایل او سی کے کپوڑہ بھی شامل ہے‘ مجھے غیرملکی قراردیتے ہوئے حراست میں لے لیاگیا“۔

انہوں نے کہاکہ ”میں فوج میں تیس سال خدمات انجام دئے ہیں۔

میں نے مدھیہ پردیش‘ مہارشٹرا‘ راجستھان‘ دہلی‘ پنجاب‘ جموں او رکشمیر‘ آندھرا پردیش‘ آسام او رمنی پور میں فوجی خدمات انجام دئے ہیں۔

سرحد پر بہادری کے ساتھ کھڑے ہوکر میں نے اپنے ملک کی حفاظت کی ہے۔ میں ایک ہندوستانی ہوں او رمجھے یقین ہے میرے معاملہ میں میرے ساتھ ضرور انصاف ہوگا“۔

کارپس آف الکٹرانک اور میکانیکل (ای ایم ای) میں صوبعدار کے طور پر 52سالہ ثناء اللہ 2017اگست کو ریٹائرڈ ہوئے تھے۔

وہ21مئی 1987کو فوجم میں شامل ہوئے تھے اور انہیں 2014میں صدراتی سند بھی دی گئی اس کے علاوہ انہیں ”صوبعدار کے عہدے پر ریگولر آرمی میں جونیر کمشنڈ افیسر“ کے طور پر ترقی بھی دی گئی تھی۔

ریٹائرمنٹ کے بعد ثناء اللہ نے تعلیمی ٹسٹ پاس کرنے کے بعد آسام پولیس کی سرحدی وینگ میں بطور سب انسپکٹر کام روپ(رول) ضلع میں خدمات انجام دئے۔

تاہم تحقیقات کے بعد 2009-09میں غیر ملکی کا شبہ پر‘ سرحدی پولیس نے ان کے خلاف ”اس حوالے“ سے غیر ملکی ٹربیونل (ایف ٹی) میں ایک کیس درج کیا۔

ثناء اللہ کو 23مئی کے روز کیس میں شکست ہوئی۔ چھ دن بعد انہیں گول پارہ کے تحویلی کیمپ میں بھیج دیاگیا۔

غیرملکی ایکٹ 1946کے تحت غیر قانونی پناہ گزینوں اور غیرملکی باشندوں کی شناخت کے عمل کو پورا کرنے کے لئے ریاست بھر میں ایک سوس سے زائد ایف ٹی قائم کئے گئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ”میرے ریٹائرمنٹ کے میں میں نے اپنی ریاست او رملک کی خدمت کو جاری رکھنے کا موقع تلاش کیا۔

سرحدی شعبہ میں منتخب ہوا اور مجھے نوکری مل گئی۔ جس افیسر نے مجھے گرفتار کیاوہ میراسینئر ساتھی تھا۔ اس نے ایف ٹی کے احکامات کی پابجائی کی“۔

انہوں نے بتایاکہ”مئی 28 کی شام مجھے ڈی سی پی نارتھ گوہائی پولیس اسٹیشن سے فون کال آیا۔ میں سمجھا گیاتھا کہ یہ فون کال میری ایف ٹی کے احکامات کے تحت میری تحویل کے لئے کیاگیاہے۔

اسٹیشن میں رات بھر میں بیٹھا رہا‘ سونے کے لئے بھی جگہ نہیں تھی۔ اگلے روز صبح7بجے کے قریب میرگول پارہ کے تحویلی کیمپ میں داخل ہوا۔ چالیس لوگوں کے ساتھ قید خانے میں مجھے رکھا گیا۔

انہوں نے مجھے دو بلانکٹس‘ ایک عدد مچھر دانی‘ ایک پلیٹ اور ایک پانی کاگلا س دیا“۔ ثناء اللہ نے کہاکہ 20,000کے بانڈ او رشخصی مچلکے پر ضمانت جاری کی گئی۔

انگلیوں‘ آنکھو ں کے نشانات اوربائیو میٹرک کے علاوہ فوٹو گراف حاصل بھی کئے گئے اور ثناء اللہ کو کام روپ (رورل) اورکام روپ (میٹرو) سے باہر جانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

ثناء اللہ نے کہاکہ ’ساتھی قیدیو ں سے بات کرنے کے بعد ان کا دل کو شدید تکلیف ہوئی ہے‘ ان میں سے زیادہ تر کبھی اسکول نہیں گئے او رنہایت غریب ہیں۔ ان میں سے کچھ تو پچھلے اٹھ نو سال سے تحویلی کیمپ میں ہیں۔

ان میں سے ایک شخص جس کاتعلق نال باری ضلع سے ہے او راسکی عمر65سال کی ہے وہ پچھلے نو سال سے یہاں پر ہے۔

زیادہ تر نے مجھے بتایاکہ نام میں الفاظ کی غلطی کی وجہہ سے انہیں یہاں پر بھیج دیاگیاہے“