آفات سماوی کے پس پردہ اسباب و محرکات امریکہ قہر خداوندی کی زد میں

   

کالیفورنیا میں جنگل کی آگ نے کئی ایک بستیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیاجس میں کئی لوگ ہلاک ہوچکے اور سینکڑوں لاپتہ ہیں اور ہزاروں نقل مکان کرچکے ہیں اور بعض مقامات پر بستی کی بستی جلکر خاکستر ہوگئی ہے ۔ جنگل کی آگ ، زلزلے ، طوفان ، آندھیاں، سیلاب ، سونامی اور دیگر آفات سماوی درحقیقت خدا کی قدرت کی نشانیاں ہیں، جس کے سامنے ساری دنیا عاجز و بے بس ہے۔ یہ آفات و حوادث قرب قیامت تک گاہے گاہے پیش آتے رہیں گے تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو اور وہ غفلت کی زندگی اور ظلم و ستم سے باز آجائیں نیز آیات قدرت پر غور و خوض کرکے خدا ئے وحدہ لاشریک پر ایمان لے آئیں تاکہ آخرت کے دائمی اور ہمیشگی کے عذاب سے بچ سکیں۔ اگر لوگ وقفہ وقفہ سے وقوع پذیر ہونے والی اس ہلاکت خیز آفات ناگہانی سے عبرت حاصل نہ کریں اور اپنی بدمستی و بدہوشی میں مخمور رہیں تو قیامت کا دن دور نہیں جس دن آناً فاناً ساری دنیا تباہ و برباد ہوجائیگی ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اور ہم انھیں کوئی نشانی نہیں دکھاتے مگر ( یہ کہ ) وہ اپنے سے پہلی مشابہ نشانی سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے اور ہم نے انھیں ( کئی بار ) عذاب میں پکڑا ہے شاید کہ وہ رجوع ہوجائیں اور باز آجائیں۔ (سورۃ الزخرف ؍ ۴۸)
دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقت و قوت کا حامل ملک امریکہ آفاتِ سماوی کے قہر کے سامنے عاجز و بے بس ہے ۔ اس کے اسباب سے جزوی طورپر واقف ہے لیکن سدباب سے بالکل عاجز ہے ، حفظ ماتقدم سے قاصر ہے۔ یہ ایک کھری حقیقت ہے کہ زمین جو ہزارہا سال سے کروڑہا انسانوں اور اربوں جائداد و املاک کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہے ، جس کے بغیر انسانی زندگی کا تصور نہیں ۔ اگر اس کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے اور وہ تھوڑی سی حرکت کردے تو دنیا میں کہرام مچ جاتا ہے ۔ بلند قامت عمارتیں آن واحد میں زمیں بوس ہوجاتی ہیں اور آبادیاں قبرستان میں تبدیل ہوجاتی ہیں ۔ یہی پانی جو حیات انسانی کا ضامن ہے جب وہ تموج میں آتا ہے تو اس کی ہلاکت خیز موجوں سے کئی آباد شہر صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں ۔ یہی آگ جو انسان زندگی کا تلازمہ ہے جب وہ بے قابو ہوجائے تو کیا انسان ، کیا حیوان ، کیامکان کیا دوکان ہرچیز کو جلاکر خاکستر کردیتی ہے اور ہزاروں میل پر محیط جنگل کو نگل جاتی ہے ۔
اکیسویں صدی میں آفات سماوی کی تباہیاں دنیا کے طول و عرض میں کافی ہوئی ہیں بالخصوص امریکہ ان میں سب سے زیادہ متاثر رہا ہے اور یکے بعد دیگرے اس کی زد میں آتے جارہا ہے ۔
روئے زمین پر پہلا قیامت خیز عذاب طوفان کی شکل میں جس وقت آیا تھا حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کے سوا دنیا کی ہرچیز غرق ہوگئی تھی ۔ اسی عذاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے سورۃ القمر میں ارشاد فرمایا : سو ہم نے موسلا دھار بارش کے ساتھ آسمان کے دروازے کھول دیئے اور ہم نے زمین سے چشمے جاری کردیئے ۔ پس پانی ایک ہی کام کے لئے جمع کیا گیا جو پہلے سے مقرر تھا ۔ ( سورۃ القمر ؍ ۱۱، ۱۲)
ماہرین موسمیات ان آفات سماوی کے پس پردہ محرکات و عوامل کو مختلف زاویوں سے پیش کرتے رہتے ہیں لیکن ظاہری اسباب کے علاوہ باطنی اسباب کو کسی صورت میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جس کی طرف قرآن مجید نے واضح اشارے دیئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : تمکو جو مصیبت پہنچی ہے وہ درحقیقت تمہارے ہاتھوں سے آگے بھیجے ہوئے اعمال ( بد) کے باعث ہے ۔ بے شک انسان بڑا ناشکرا ہے ۔ (سورۃ الشوریٰ ؍ ۴۸)
ہوائیں اُن کی ، فضائیں اُن کی ، سمندر اُن کے ، جہاز اُن کے
گرہ بھونر کی کھلے تو کیونکر ، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
اس خاکدان گیتی پر انسان ہزاروں سال سے زندگی بسر کررہا ہے۔ مختلف وقت اور مختلف شکل میں اﷲ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا اور ایک ہی وقت میں قوم کی قوم تباہ و برباد ہوگئی ۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے مختلف قوموں پر عذاب نازل کرنے کا ذکر فرمایا اور ساتھ میں نزول عذاب کے سبب کا بھی ذکر کردیا۔ خدا کا یہ قانونِ فطری ہے کہ جب وہ سبب دوبارہ ظاہر ہوتا ہے تو پھر عذاب مختلف شکلوں میں واقع ہوتا ہے ۔ جب اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی آیات قدرت کا انکار ، کفر و شرک پر اصرار ، نبی برحق ﷺ کی شان میں بے ادبی و نافرمانی ، ظلم و زیادتی ، ناانصافی و حق تلفی ، بے راہ روی و بدکاری ، فحش اور بے حیائی ، فسق و فجور ، سرکشی و عناد ، سستی اور غفلت کے علاوہ جب گناہ بڑھ جاتے ہیں تو پھر اﷲ تعالیٰ کا قہر نازل ہوتا ہے ۔
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اور ہم نے نوح (علیہ السلام ) کے بعد کتنی ہی قوموں کو ہلاک کرڈالا اور آپ کا رب کافی ہے ( وہ ) اپنے بندوں کے گناہوں سے خوب باخبر اور خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔
( سورۃ بنی اسرائیل؍۱۷)
’’اور جب ہمارے ارسال کردہ (فرشتے)ابراھیم (علیہ السلام) کے پاس خوشخبری لیکر آئے تو انھوں نے یہ بھی کہا : ہم اس بستی کے مکینوں کو ہلاک کرنے والے ہیں کیونکہ یہاں کے باشندے ظالم ہیں‘‘ ۔
(سورۃ العنکبوت؍۳۱)
بے شک ہم اس بستی کے باشندوں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں ، اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی ( اور ) فسق و فجور میں مبتلا تھے ۔(سورۃ العنکبوت؍۳۴)
’’اور مدین کی طرف اُن کے بھائی شعیب ( علیہ السلام ) کو بھیجا سو انھوں نے کہا : اے میری قوم ! اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو اور یوم آخرت کی امید رکھو اور زمین میں فساد انگیزی کرتے ہوئے نہ پھرو تو انھوں نے شعیب ( علیہ السلام) کو جھٹلایا ۔ پس انھیں زلزلے نے آپکڑا ، سو انھوں نے صبح کی اس حال میں کہ وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ ( مردہ) پڑے تھے ‘‘۔ ( سورۃ العنکبوت؍۳۶، ۳۷)
’’پس تم سے پہلے کی اُمتوں میں ایسے فضل و خرد والے کیوں نہ تھے جو لوگوں کو زمین میں فساد انگیزی سے روکتے بجز ان میں سے تھوڑے لوگوں کے جنہیںہم نے نجات دیدی اور ظالموں نے عیش و عشرت کے راستہ کی پیروی کی جس میں وہ پڑے تھے اور وہ مجرم تھے اور آپ کا رب ایسا نہیں کہ وہ بستیوں کو ظلماً ہلاک کرڈالے دراں حالیکہ اس کے باشندے نیکوکار ہوں ‘‘۔ ( سورہ ھود؍۱۱۶۔۱۱۷)
امریکہ کے عام شہری ان آفات سماوی اور عالمی سیاسی پراگندگی کو بڑے خوف و دہشت سے دیکھ رہے ہیں اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ ان پے در پے آفات و حوادث اور تباہیوں کے پس پردہ ضرور باطنی اسباب و محرکات ہیں اور ان کے دل آنے والی عظیم تباہی سے خوف زدہ ہے۔