احسا ن جعفری کی بیٹی سے لے کر سنجیو بھٹ کی اہلیہ تک۔ یہ ہے ہندوستان ہے‘ آپ سونچتے ہیں کہ لوگوں کا خیال رکھیں گے؟۔

,

   

جعفری کی بیٹی نے یاد کرتے ہوئے کہاکہ تین دولت مندترین لوگ گجراتی ہیں‘ مگر ان میں سے کی بھی بیویوں نے اس وقت ہمدردی یا اظہار یگانگت کے لئے آگے نہیں ائے جب سابق رکن پارلیمنٹ کو زندہ جلانے کا واقعہ پیش آیاتھا۔

سابق ائی پی ایس افیسر جس کو پچھلے ہفتہ ایک تیس سال پرانے مبینہ پولیس تحویل میں موت کے واقعہ میں عمر قید کی سزاسنائی گئی ہے‘

ان کی اہلیہ کے نام جاری ایک مکتوب میں احسان جعفری جس کو گودھرا واقعہ کے بعد پیش ائے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران احمد آباد میں زندہ جلادیاگیاتھا‘

ان کی بیٹی نے کہا ہے کہ وہ لوگو ں سے زیادہ ہمدردی اور اظہار یگانگت کی توقع نہ کرسکیں۔انہوں نے لکھا کہ یہ ہندوستان ہے اور تنہا جدوجہد کرنا ہوگا۔

فیس بک پر پیش کئے گئے لیٹر کو بنا ء کسی چھیڑ چھاڑ کے ساتھ یہاں پر پیش کیاجارہا ہے۔

ہردلعزیز شویتا سنجیو بھٹ۔

ٓہندوستان میں انسانی حقوق او رانصاف کے لئے تنہا جدوجہد کرنا ہوگا۔

ایک مرتبہ تیستا ستلواد نے اس کا ذکر اپنے انٹرویو میں کیاتھا اور کئی دنوں تک میں اس جملے کی گہرائی میں جاکر سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

میں یہ تنہائی پہلے روز سے محسوس کررہی ہوں مگر میں نہیں جانتی کہ اس کا خود سے اظہارکروں۔

لہذا میں آپ کو بتاتی ہوکہ یہ تنہائی اس سڑک پر کتنی ہے یہ کے آپ کے شوہر کو اٹھاکر لے کر چلے گئے ہیں اور کتنے مدت تک‘ تنہا اور مشکل راستہ آپ کے سامنے ہے‘جس راستے پر چلتے ہوئے آپ نے اپنے گھر والو ں او ربچوں کو بھی اب تک نہیں دیکھا ہے۔

میری ماں 1960کے دہے میں کبھی کسی وقت احمد آباد منتقل ہوئی اس وقت وہ 23سال کی تھیں اور 2002میں ساٹھ سال کی عمر میں جب انہو ں نے اپنا گھر چھوڑا اور سڑکوں پر اسی ساڑی میں نکل پڑیں وہ 28فبروری کی صبح تھی‘ اور یہ وہی سڑکیں تھیں جس پر انہو ں نے

چالیس سال تک چہل قدمی کی مگر ایک دروازہ بھی کھلا نہیں اور یہ ان کے گھر جو چمن پورہ سے لے کر گاندھی نگر تک کا سلسلہ تھا جہاں پر انہوں نے اگلے روز اپنے ایک فیملی فرینڈ کے گھر پہنچی جس کا دروازہ کھلا‘ اور انہوں نے اپنی بانہیں کھول کا ان کا استقبال کیا۔

کیاآپ سمجھتی ہیں وہ شہر جس کو آپ اپنا گھر سمجھتے ہیں اور وہ لوگ جس کو آپ”میری دیش واسی“ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں‘ آپ کیا سمجھتے ہیں وہ آپ کا خیال رکھیں گے؟۔

احمد آباد میں رہنے والے کوئی بڑی ہستی‘ اور میرے والد کے طویل مدتی دوستوں نے بھی آکر ان سے ملاقات نہیں کی۔

یہاں تک کہ وہ لو گ بھی جو ان کے باروچی خانہ میں بیٹھ کر گوشت کا سالن اور بریانی میرے والد کے ساتھ کھایا کرتے تھے‘ لاکھوں لوگ احمد آباد کے جن کے ساتھ میرے والد نے کام کیاہے‘ الیکشن لڑا ہے‘ عدالتی مقدمہ لڑیں ہیں‘ ریالیوں میں شرکت کی ہے‘ احتجاج میں بیٹھے ہیں‘ ہولی اور عید منائی ہے اور دیوالی منائی ہے۔

یہا ں تک کہ اس وقت بھی وہ لوگ ملاقات کے لئے نہیں ائے جب وہ گاندھی نگر میں ملیں اور میرے والد کو بے رحمی سے قتل کرنے کے علاوہ ان کی کمیونٹی کے سینکڑوں لوگوں کو جان سے مارنے کی خبریں گشت کررہی تھیں۔

تم کیاسمجھتے ہو کیونکہ آپ کے شوہر نے ریاست او رشہر میں کام کیاہے‘ آپ کے شوہر کی تعلیم او رخدمات او ران کا ملک کی خدمت کا خواب‘ ایمانداری اور سنجیدگی سے کام کرنا لوگوں کو آپ کی جدوجہد میں شامل کرنے کے قابل قبول ہوگا؟۔

اسی طرح کا ایک واقعہ کینڈا میں جب پیش آیاجس میں سابق ممبر آف پارلیمنٹ کو بے رحمی سے جلاکر ان کے گھر میں دیگر169لوگوں کے ساتھ ماردیاگیاتھا‘ جسٹن ٹروڈو اور ان کی ساری کابینہ پارلیمنٹ بندکردیاتھا اور ہر ایک متاثرہ کی مدد کے لئے کھڑے ہوگئے تھے۔

زیادہ تر بڑے کاروباریوں نے گلبرگ سوسائٹی اور دیگرعلاقوں میں بے گھر لوگوں کے مکانات کی دوبارہ تعمیر کا کام شروع کردیا ہے تاکہ ان کی بازآبادکاری کی جاسکے۔

سال 2002اور اب بھی تین دولت مند ہندوستانی گجرات سے ہیں مگر اب بھی ان کی فیملی کی عورتیں جو امدادی کام پر فخر محسوس کرتی ہیں مدد کے لئے آگے نہیں الے اور دولت مند‘ مشہورعورتیں نے اپنی محبت اور اتحاد کا آج تک مظاہرہ نہیں کیا۔

آپ کیاسمجھتے ہیں کیونکہ آپ نے ایک ساڑی پہنی ہے اور اپنے ماتھے خوبصورت بندی لگائی ہے تو کیاوہ آپ کو انسان سمجھیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ آپ ایک ماں‘ بیوی‘ او ربیٹی کی حیثیت سے جو کررہی ہیں تو وہ آپ کی جدوجہد میں شامل ہوجائیں گے؟۔

ہر روز صبح لاکھوں عورتوں اپنے شہروں‘ ٹاؤن‘دیہاتوں میں پوجا کے لئے جاتے ہیں‘ مگر اس دن کے متعلق نہیں سونچتا جو شہر میں ایک ساتھ شیئر کیاہے‘ اور ایک ساری کمیونٹی سڑکوں پر جگہ کی تلاش کررہی ہے معمروالدین چھوٹے بچوں کے ساتھ سڑکوں پر رات گذار رہے تھے۔

گجرات کے اسکول ٹیچروں سے بھرے ہیں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں خاتون پروفیسر وں‘ تاجروں‘ کام کرنے والی عورتوں ہر روز اسی راستے گذاررہے تھے جس راستے پر ایک کمیونٹی کے لوگ بے گھر کردئے جانے کے بعد کئی دنوں تک ایک ہی لباس میں سڑک پر پڑے ہوئے تھے‘ ان کے ساتھ زخمی والدین او ربچے بھی شامل تھے‘

کچھ لوگ اپنے لوگوں کی نعشوں کی تلاش کررہے تھے جہاں پر ہزاروں جھلسی ہوئی نعشیں پڑی تھیں‘

اور کچھ لوگ مسلم علاقوں کے اسکولوں کی سخت زمین جس کو اب پناہ گزین کیمپ میں تبدیل کردیاگیا ہے پر سونے کی کوشش کررہے تھے‘ توکچھ لوگ قبرستان کے کسی کونے میں جگہ کی تلاش کررہے تھے۔

آپ کیاسمجھتی ہوں وہی لوگ جن حالات سے آپ گذ ررہی ہیں اس سے فکر مند ہوں گے جبکہ آپ کے شوہر فسطائی طاقتوں سے جدوجہد کرنے کی وجہہ سے جیل میں قید ہیں۔

ہمارے ملک کے کسی بھی دور میں نہ صرف مذکورہ ائی پی ایس افیسر بلکہ تمام سرکاری ملازمین نہ صرف گجرات بلکہ ہندوستان بھر میں اس طرح کی ہراسانی کے خلاف ہڑتال نہیں جس کا آج سنجیو بھٹ سامنا کررہے ہیں۔

مگر آپ ہندوستان میں ہیں میری دوست جہاں پر ہمیں منقسم کرنے کے لئے نفرت کی یومیہ خوراک پلائی جاتی ہے۔ اگر کوئی مصیبت ہم پر آرہی ہے تو میں قدرتی مصیبت کے لئے دعاء کروں گی نہ کہ مذہبی اورسیاسی بنیاد پرنفرت کی مصیبت کے لئے دعاء کروں گی۔۔

صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ نفرت کا شکار ہوئے ہیں کہ یہ راستے کس قدر مشکل ہے۔ میری تمام دعائیں اور محبت آپ اور آپ کے حوصلے والے شوہر سنجیوبھٹ کے لئے ہیں۔

آپ کی اپنی نسرین جعفری حسین