اسرائیل نے بالآخر وہی کیا جس کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے ۔ یہودی مملکت نے غزہ پر حماس کے کارکنوںکو نشانہ بنانے کا بہانہ پیش کرتے ہوئے جو حملے کئے ہیں وہ انتہائی وحشیانہ تھے اور ان میںچار سو سے زائد نہتے اور بے قصور فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ اسرائیل نے یہ وحشیانہ کارروائی اس وقت کی ہے جبکہ ماہ رمضان المبارک چل رہا ہے اور اسرائیل ۔ حماس کے درمیان جنگ بندی بھی نافذہے ۔ جنگ بندی کی صریح خلاف ورزی پہلے بھی کی گئی تھی اور معمولی کارروائیاں اسرائیل نے کی تھیں تاہم اب جو وحشیانہ کارروائی کی گئی ہے وہ ہیبت ناک کہی جاسکتی ہے کیونکہ اس میں چار سوسے زائدفلسطینی شہید ہوگئے ہیں اور مزید سینکڑوں فلسطینی زخمی ہوگئے ہیں۔ تقریبا پندرہ ماہ کی ہلاکت خیز اورتباہ کن جنگ کے بعد فلسطینی عوام کو کچھ راحت ملی تھی ۔ کچھ سکون کے سانس مل رہے تھے ۔ حالانکہ ان کی دنیا کو اجاڑ دیا گیا ہے اور ان کے گھروںکو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے ہزاروں فلسطینیوں کو شہید اور لاکھوں کو بے گھر کردیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود فلسطینیوں نے ہمت نہیں ہاری اور وہ اپنے اجڑے گھروں کی طرح اجڑی ہوئی زندگیوںکو بہتر بنانے کی پہل کرہی رہے تھے کہ انہیں ایک بار پھر وحشیانہ کارروائی کا نشانہ بنادیا گیا ۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ حملہ حماس کے کارکنوں کو نشانہ بنانے کیلئے کیا گیا تھا ۔ یہ صرف ایک بہانہ ہے جو اسرائیل دنیا کے دکھاوے کیلئے پیش کر رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک منظم منصوبے کے تحت فلسطینیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے اور غزہ پر امریکی تسلط اور قبضہ کو یقینی بنانے کی سمت پیشرفت کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ماہ رمضان جیسے مقدس مہینے میں اس طرح کی نسل کشی انتہائی قابل مذمت اور اسرائیل و امریکہ کے وحشیانہ عزائم کا ثبوت ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا اور خاص طور پر عرب و مسلم دنیا اس کے خلاف آواز اٹھائے اور ایسے وحشیانہ حملوںاور کارروائیوںکو روکنے کی کوشش کی جائے ۔ فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنا انصاف کا تقاضہ ہے اور بحیثیت پڑوسی ان عرب ممالک کی ذمہ داری بھی ہے جو انہیں پوری کرنی چاہئے ۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ کے تحت قیدیوں کو رہا کردیا گیا تھا ۔ حالات ٹھیک دکھائی دے رہے تھے اور کچھ گوشوں کی جانب سے جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کی بات کی جا رہی تھی ۔ غزہ کی تعمیر جدید اور فلسطینیوںکو رحت پہونچانے کے منصوبے تیار کرنے پر زورد یا جا رہا تھا ۔ عرب ممالک کے علاوہ بین الاقوامی اداروںپر زور دیا جا رہا تھا کہ وہ اس معاملے میں آگے آئیں اور ایک دیانتدارانہ اور انصاف پسندانہ رول ادا کرتے ہوئے غزہ کی تعمیر جدید کو یقینی بنایا جائے ۔ اس کیلئے ہر ایک کی ذمہ داریوں کا تعین کیا جائے اور عالمی نگرانی میں یہ کام کیا جائے ۔ تاہم ایسے لگتا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ نہیں چاہتے کہ غزہ یا فلسطین کے کسی بھی شہر کی تعمیر جدید ہو اور وہاں فلسطینیوںکی بستیاں ایک بار پھر بس سکیں اور وہاں زندگی کی رونقیں بحال ہوسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ بھی غزہ سے فلسطینیوں کے انخلاء کی بات کر رہا ہے تو اسرائیل بھی اس کی مدد پر تلا ہوا ہے ۔ ان کے عزائم اور منصوبوں کا پوری طرح دنیا کو پتہ تو نہیں ہے لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان کے عزائم اور منصوبے صاف نہیں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی قیمت پر غزہ کو حاصل کرلیا جائے اور فلسطینیوں کو ان کی ہی سرزمین سے نکال کر باہر کردیا جائے ۔ یہ ایک ظالمانہ منصوبہ ہے اور اس کو کامیاب یا پورا ہونے کا موقع نہیں دیا جاناچاہئے ۔ اس کے ذریعہ صیہونی مملکت کی حفاظت کو یقینی بنایا جا رہا ہے لیکن فلسطینیوں کی حفاظت پر سمجھوتہ کیا جا رہا ہے ۔
عالمی برادری اور خاص طور پر عرب ممالک کیلئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اسرائیل کے اس طرح کے ظالمانہ اور وحشیانہ حملوں کے خلاف آواز اٹھائیں اورفلسطینیوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ بین الاقوامی برادری کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے اور سب کو ایک رائے بناتے ہوئے فلسطینیوں کی حفاظت کا منصوبہ بنایا جانا چاہئے ۔ ضرورت یہ بھی ہے کہ جنگ بندی معاہدہ کے دوسرے مرحلے کی سمت پیشرفت کی جائے تاکہ اسرائیل کے ناپاک عزائم کو روکا جاسکے اور ان کی سرزمین پر بری نظریں ڈالنے والوںکو ناکامی ہو اور فلسطینیوں کو اسرائیل کے ظالمانہ اور وحشیانہ حملوںسے پوری طرح محفوظ بنایا جاسکے ۔