اسلاموفوبیا کا مقابلہ مشکل لیکن ممکن

   

رام پنیانی
دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کی لہر پیدا کرنے کے لئے اسلاموفوبیا بڑے پیمانہ پر پھیلانے کی کوشش ہورہی ہے اور یقینا یہ کوشش عالمی امن کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ ان سے عالمی سطح پر امن تباہ و برباد ہوسکتا ہے تاہم ایسے ممالک جہاں اسلاموفوبیا کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف نفرت و تشدد کی لہر پیدا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں وہاں کے سیاستداں اور سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جارہی غلط باتوں اور نظریات و تصورات کا خاتمہ کرتی ہیں تو اس سے امن و امان قائم کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ مثال کے طور پر جولائی 2024 ء میں برطانوی شہروں نے فسادات اور بدامنی کا مشاہدہ کیا۔ فساد و بے چینی کے واقعات دراصل لوگوں میں پائے جانے والے مخالف ایمگرینٹس جذبات اور غلط معلومات کے باعث پیش آئے۔ واضح رہے کہ ان فسادات میں مسلمان اصل نشانہ تھے۔ مساجد اور ان مقامات پر حملے کئے گئے جہاں ایمگرنٹس مقیم ہیں۔ ان فسادات اور بے چینی کے بعد برطانیہ کا کل جماعتی پارلیمانی گروپ آیا اور اس نے مستقبل میں اس قسم کے ناپسندیدہ و ناگوار واقعات کے انسداد و روک تھام کیلئے ایک رپورٹ پیش کی۔ اس گروپ نے سب سے اچھا جو کام کیا وہ یہ تھا کہ اس نے رپورٹ میں ایک طرح سے حکم دیا کہ اکثر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف یہ جملہ ’’مسلمانوں نے تلوار کے زور پر اسلام پھیلایا‘‘ استعمال کیا جاتا ہے، اس جملہ کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے کیوں کہ یہ جملہ اسلاموفوبیا کے اسباب یا اس کی جڑوں میں سے ایک ہے۔ مسلمانوں کو ظالموں کے طور پر پیش کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلم بادشاہوں نے ہندو راجاؤں کا قتل کیا جبکہ بادشاہوں اور راجاؤں کی لڑائی کے پیچھے سیاسی وجوہات اور اقتدار کی ہوس کارفرما رہی لیکن اصل حقائق سے قطع نظر یہ مشہور کردیا گیا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے حالانکہ ہندوستان میں اسلام کے پھیلنے لوگوں کے قلوب میں اُترنے کی کچھ اور وجوہات ہیں۔ فرقہ پرست عناصر اسلام کے پھیلنے کے بارے میں جو کچھ بھی بکواس کرتے ہیں جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں، پروپگنڈہ کرتے ہیں، وہ حقیقت کے متضاد ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد اور اسلام کی مقبولیت اس کے پھیلنے سے متعلق سوامی وویکانند کا خیال ہے کہ ہندوستان میں محمڈنس (مسلمانوں) کی فتح کمزور و غریب طبقات کی نجات کے طور پر منظر عام پر آئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لوگوں (ہندوؤں) کا پانچواں حصہ مسلمان بن گیا یعنی اسلام قبول کیا۔ کیوں کہ انہیں محسوس ہوا کہ دین اسلام ان کے لئے نجات کا باعث بنا ہے، یہ تلوار نہیں تھی جس نے یہ سب کچھ کیا اور ایسا سوچنا پاگل پن کے سوا کچھ نہیں کہ یہ سب تلوار اور آگ کا کام تھا۔ آج مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف بہت زیادہ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جنھیں ایک سازش کے تحت منصوبہ بند انداز میں پھیلایا گیا اور بلاشک و شبہ کہا جاسکتا ہے کہ یہی غلط فہمیاں فرقہ وارانہ تشدد کی بنیاد ہیں اور افسوس کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ غلط فہمیاں مضبوط ہوتی جارہی ہیں اور سماجی سوچ و فکر اور عقل کا ایک حصہ بن گئی ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لئے سب سے پہلے یہ جھوٹ پھیلایا گیا کہ مسلم بادشاہوں نے ہندوؤں کے مندروں کو منہدم کروایا اور فرقہ پرست تنظیموں، جماعتوں اور شخصیتوں کا یہ پروپگنڈہ جب شدت اختیار کرگیا تب 6 ڈسمبر 1992 ء کو شہادت بابری کی شکل میں اس کا نتیجہ برآمد ہوا۔ افسوس صد افسوس کہ بابری مسجد کے خاطیوں کو آج کی تاریخ تک کوئی سزا نہیں دی گئی۔ بابری مسجد کی شہادت کے ساتھ ہی یہ پروپگنڈہ شروع کردیا گیا کہ کاشی اور متھرا میں جو مساجد ہیں وہ بھی مندروں پر تعمیر کی گئی ہیں لہذا انھیں بھی ہندوؤں کے حوالے کیا جائے۔ اب تو یادگار محبت تاج محل پر بھی فرقہ پرست طاقتوں نے بُری نظر ڈالنی شروع کردی ہے اور یہ پروپگنڈہ کیا جارہا ہے کہ شیو مندر کو مقبرہ نور جہاں میں تبدیل کیا گیا جو جہانگیر کی ملکہ تھی۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور انھیں بدنام کرنے کی خاطر یہ بھی پروپگنڈہ کیا گیا کہ گائے ایک مقدس جانور ہے اور مسلمان گائے ذبح کررہے ہیں جس کے بعد بے قصور مسلم نوجوانوں کو ہجومی تشدد کے ذریعہ حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور انھیں قتل کیا گیا جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ملک کے کسی نہ کسی حصہ خاص کر شمالی ہند میں ہجومی تشدد کے واقعات پیش آرہے ہیں India Spend کے مطابق 2010 ء تا 2017 ء جانوروں کے مسئلہ پر جو تشدد کے واقعات پیش آئے ان میں سے 51 فیصد واقعات میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ہجومی تشدد کے پیش آئے 63 واقعات میں 28 ہندوستانی شہری موت کا شکار ہوئے ان میں 86 فیصد مسلمان ہیں۔ تاہم اس میں سے صرف 3 فیصد واقعات منظر عام پر آئے یا مقدمات درج کئے گئے۔ India Spend نے یہ بھی لکھا کہ گائے سے جڑے تشدد کے واقعات (63 میں سے 32 بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں پیش آئے) حقوق انسانی کے جہدکار ہرش مندر بانی کاروان محبت نے ہجومی تشدد کے متاثرین کے مہلوکین) کے خاندانوں سے ملاقات کی اور ان کی دلجوئی کرنے کی کوشش کی۔ ہجومی تشدد کا اثر بہت خوفناک ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب گائیوں کی اسمگلنگ کے شبہ میں گاؤ رکھشکوں نے ہندو طالب علم آرین مشرا کو قتل کردیا۔ اس کی غمزدہ ماں کا کہنا تھا کہ گاؤ رکھشکوں نے ان کے بیٹے کو مسلمان سمجھ کر قتل کیا۔ اس نے سوال کیاکہ کیا مسلمان انسان نہیں ہیں؟ آپ کو مسلمانوں کو قتل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
ہم اس ضمن میں اخلاق، حافظ جنید، رکبر خاں کئی نوجوانوں کو یاد کرسکتے ہیں جنھیں ذبیحہ گاؤ کے شبہ میں شہید کیا گیا جبکہ حال ہی میں امرتسر میں پالمپور جاتے ہوئے میرے نوجوان دوست آوارہ گائیوں کی حالت زار دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔