جنگ آزادی میں علماء کی قربانیاں-2 /از قلم: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

,

   

اس طرح انیسویں صدی کے وسط سے اس کے مکمل ہونے تک حقیقت یہ ہے کہ جنگ آزادی کی رکاب مسلمان علماء ہی کے ہاتھوں رہی ، اور انہی کے خون و لہو سے اس مہم میں حرارت و گرمی پیدا ہوتی رہی ، اس دور میں اس کا بنیادی مرکز ’’ سرحد ‘‘ کا علاقہ اور صادق پور ( پٹنہ ) کے علماء رہے ، یہ آزادی کا سب سے خونچکاں اور برطانوی بربریت ووحشت کے عروج کا دور رہا ہے ، ۱۹۱۲ء میں مولانا حسرت موہانی نے انگریزی مال کے بائیکاٹ کے لیے پورے ملک میں تحریک چلائی ، اس پر علماء کے فتاویٰ حاصل کئے ، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے اس تحریک میں نہایت سرگرم حصہ لیا اور اس کو کامیابی سے ہمکنار کیا ۔ 

بیسویں صدی کے ایک دہے کے بعد یعنی ۱۹۱۵ء میں علماء کے زیر سایہ وہ عظیم الشان تحریک شروع ہوئی جس کو ’’ ریشمی رومال تحریک ‘‘ کہا جاتا ہے ، اور جو بہ فیصلۂ تقدیر ناکام ہوگئی ، اس کے ذریعہ کابل کی طرف سے ہندوستان پر حملہ اورملک میںبہ یک وقت چہار طرفہ بغاوت کا منصوبہ تھا ، اسی دور میں جلاوطن حکومت قائم ہوئی ، جس کے صدر راجہ مہندر پرتاب تھے ، مولانا برکت اللہؒ وزیر اعظم ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ وزیر داخلہ اور مولانا بشیرؒ وزیر دفاع تھے ، کابل میں خدائی فوج قائم ہوئی ، جس میں مولانا سیف الرحمنؒ اور مولانا منصور انصاریؒ و غیرہ شامل تھے ، اس تحریک کے سرخیل اور دل و دماغ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ تھے ، ’’ ریشمی رومال تحریک ‘‘ کے افشاء کے بعد مولانا موصوف حجاز سے گرفتار ہوئے اورمالٹا میں پانچ سال اسیر رہے ، اس دور میں دار العلوم دیوبند نے قیادت و سیادت کا کردار انجام دیا اور اس کے درجنوں فرزندوں نے آزادی کی اس تحریک میں روح پھونک دی ، مولانا عزیز گل پشاوریؒ ، مولانا آزاد سبحانیؒ ، مولانا احمد اللہ پانی پتیؒ ، مولانا فضل ربی پشاوریؒ ، مولانا محمد احمد چکوالیؒ ،مولانا محمد مبین دیوبندیؒ ، مرحوم محمد ابراہیم راندمیری و غیرہ مجاہدین آزادی اسی مرکز علم و دین سے تعلق رکھتے تھے ، اس کے علاوہ ریشمی رومال تحریک میں مولانا احمد علی لاہوریؒ ، مولانا سید ہادی حسنؒ ، مولانا ظہور محمد خاںؒ ، مولانا غلام محمد دین پوریؒ ، مولانا ابوالحسن تاج محمودؒ ( سکھر ) ، مولانا محمد صادقؒ اور مولانا جلیل احمد کیرانویؒ و غیرہ اس زمانہ کے مشاہیر مجاہدین آزدای میں تھے ،جن کے نام تک سے آج نئی نسل کے کان نا آشنا ہیں ۔ 

ہندوستان کی جد و جہد آزادی میں ایک اہم کردار ’ خلافت تحریک ‘ کا بھی ہے ، جس نے ملک کو شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک انگریزوں کے خلاف ’’ بنیان مرصوص ‘‘ بنادیاتھا اور ہندو ، مسلم اتحاد کی لہر پیدا کردی تھی ، یہ تحریک گو ۱۹۲۰ء میں شروع ہوئی اور ۱۹۴۲ء میںختم ہوگئی ؛ لیکن اس نے ہندوستانیوں کے دل سے حکمرانوں کی ہیبت اور فرمانرواؤں کا خوف نکال کر رکھ دیا اور نیا عزم و حوصلہ اور نئی ہمت و امنگ عطا کی ، خود گاندھی جی کو اعتراف تھا کہ خلافت ہی کی تحریک ہے ، جس نے قوم کو بیداری عطا کی ہے ، اس تحریک کے اصل مؤسس علماء ہی تھے ، جن میں مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کا نام سرفہرست ہے ، جمعیۃ علماء ہند کی بنیاد ہی خاص اس لیے پڑی کہ وہ مسلمانوں کو شمع آزادی کا پروانہ بنائے رکھے ، اور اس مقصد کے لیے جینا مرنا سکھائے ،جمعیۃ علماء کے اولین محرک مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ تھے ،جو شیخ الہند مولانا محمود حسن سے بڑا تعلق رکھتے تھے ، اور مولانا ابو الکلام آزاد اہم امور پر ان سے مشورہ لیا کرتے تھے ، مولانا نے سب سے پہلے بہار میں ’’ انجمن علماء بہار ‘‘ قائم کی اور خلافت کمیٹی کے پہلے اجلاس منعقدہ بمبئی ۱۹۲۰ء میں جمعیۃ کے قیام کی تحریک کی ۔

۱۹۲۰ میں حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ نے ترک موالات سے متعلق فتویٰ مرتب کیا ، جس پر وقت کے پانچ سو ممتاز علماء نے اپنے تصدیقی دستخط ثبت کئے ، ان میں جہاں ایک طرف دیوبند کے مفتی کفایت اللہؒ اور مولانا احمد سعید کے دستخط تھے ، وہیں ندوہ سے علامہ سید سلیمان ندویؒ کے ، اور جہاں غیر مقلد حضرات کی طرف سے مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ ، مولانا عبد الحکیم گیاویؒ مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹیؒ اورمولانا داؤد غزنویؒ نے اس فتویٰ کی تائید کی ، وہیں بریلوی مکتبۂ فکر سے مولانا فاخر الہ آبادیؒ اور مولانا عبد الماجد بدایونیؒ نے حق نمائندگی ادا کیا ۔ 

تحریک ترک موالات ہی کے موقع سے علامہ شبلیؒ نے وہ مشہور نظم کہی ، جس میں انگریزوں کو چیلنج بھی تھا اور ہندوستان کے حال زار پر غم اور افسوس کا اظہار بھی کہ : 

کوئی پوچھے کہ اے تہذیب انسانی کے استادو!

یہ ظلم آرائیاں تاکے ؟ یہ حشر انگیزیاں کب تک ؟

کہاںتک لوگے ہم سے انتقام فتح ایوبی ؟

دکھاؤگے ہمیں جنگ صلیبی کا نشاں کب تک ؟

گاندھی جی کی تحریک نمک سازی اور کھدر پوشی کو بھی علماء نے مذہبی رنگ عطا کیا اور علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے لاہور کے اجتماع میں ۱۹۳۱ء میں اس حدیث سے اس پر استدلال کیا ، جس میں گھاس نمک اور پانی کو مباح الاصل قرار دیا گیا ہے ۔ 

۱۹۴۶ء میں جو ہندوستان چھوڑ دو تحریک شروع ہوئی ، کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس کے اصل محرک مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ تھے ، ان ہی کی تجویز پر کانگریس اور جمعیۃ العلماء نے اس تجویز کو منظور کیا ، جس کے نتیجہ میں مولانا گرفتار ہوئے اور بہت کچھ ابتلاؤں سے گذرے ، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مکمل آزادی کا نام پہلی دفعہ مولانا محمد علی جوہر ہی کی زبان پر آیا ، مولانا نے گول میز کانفرنس لندن میں پوری قوت اور مجاہدانہ جوش کے ساتھ فرمایا : 

’’ میں غلام ہندوستان میں واپس نہیں جاؤں گا ، میں یہاں سے اس وقت لوٹوں گا ، جب میرے ہاتھ میں ہندوستان کی آزادی کا پروانہ ہوگا ، تم مجھے آزادی کا پروانہ نہیں دے سکتے تو میرے لیے اس سر زمین میں ایک قبر کی جگہ تو دینی ہی پڑے گی ‘‘ 

یہ حقیقت بھی آج کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ ’ کانگریس پارٹی ‘ جس کو جنگ آزادی کا ہیرو سمجھا جاتا ہے ، اس کی تاسیس اس جنگ آزادی کے لیے عمل میں نہیں آئی تھی ؛ بلکہ خود ایک انگریز کی ایماء پر 7؍ دسمبر ۱۸۸۴ء کو تھیوسافیکل سوسائٹی کے اجلاس پونامیں کانگریس کے قیام کی تجویز منظور ہوئی ، جسے وائسرائے ہند نے منظوری دی اوردسمبر ۱۸۸۵ء میں اس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا ، اور اس میں جو اہم ترین تجویز منظور ہوئی ، وہ یہ تھی کہ ہندوستان اور برطانیہ کے درمیان اتحاد اور یگانگت پیدا کی جائے ۔ 

تحریک آزادی کے آخری دور میں جن لوگوں نے قوم و ملک کی قیادت کی ہے اور جذبۂ حریت کے شرر کو شعلہ و آتش بنایا ہے ،ان میں حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ ، مفتی کفایت اللہ دہلوی ، مولانا محمد میاں ، مولانا منت اللہ رحمانی ،مولانا عبد الصمد رحمانی ، مولانا سید فخر الدین احمد ، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ، مولانا احمد سعید دہلوی ، مولانا عبد الحلیم صدیقی ، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری ، مولانا مرتضی حسن چاند پوری ،مولانا محمد اللہ غزنوی اورمولانا ثناء اللہ امرتسری کے نام آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں ، اوراس عہد کی ’’ جمعیۃ علماء ہند ‘‘ کو بھی یاد رکھا جائے گا ،جس نے کانگریس کے دوش بدوش اور قدم بہ قدم اس جد وجہد میں حصہ لیا ، اور ملک و قوم سے وفاداری کا حق ادا کیا ۔ 

شیخ الہند مولانامحمود حسن صاحبؒ کو انگریزوں سے ایسی نفرت تھی کہ فرماتے تھے : 

’’ انگریزوں سے جنگ کرنا جزو ایمان ہے ،میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھ سکتا ،جب تک انگریز یہاں سے چلانہ جائے ‘‘

مولانا حسین احمد مدنیؒ فرمایا کرتے تھے : 

’’ میرا بس ایک ہی دشمن ہے اوروہ ہے انگریز ، اگرکوئی کتا بھی کسی انگریز بہادر کو کاٹ کھائے یا اس پر بھونک دے ، تو مجھے اس لیے خوشی ہوگی کہ اس کا اور میرا مشن ایک ہے ، میںمسلمانوں کے ساتھ دوسرے مذہب کے پریمیوں کو بھی تلقین کرتا ہوں کہ اس ملک میں مذہب کی خیر صرف اس صورت میں ہے کہ انگریزوں کو ہم نکال باہر کریں ‘‘ 

مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کی انگریزوں سے نفرت کا حال یہ تھا کہ کہا کرتے تھے : 

’’ میں تو اس چیونٹی کو بھی شکر کھلاؤںگا ، جوکسی صاحب بہادر انگریز کو ڈس لے ، انگریز دشمنی میری سانس کے ساتھ ہے ،دین کے دیگر فرائض کی طرح انگریز سے جنگ کرنا ایمان اور ان کی فوجی طاقتوں سے ڈرنا کفر ہے ‘‘ 

اب اخیر میں اس تحریک آزادی کے گل سر سبد مولانا ابوالکلام آزادؒ کا ذکر کرنا چاہوں گا ، جس نے زندگی کے اکثر حصے قید و اسارت کی دیواروں میں بسر کئے ، رفیقۂ حیات کے جنازہ میں شرکت سے بھی محروم رہا ، اورجس نے ’’ الہلال و البلاغ ‘‘ کے ذریعہ ہندوستان کے تن مردہ میں ایک نئی روح پھونک دی اورنئی زندگی پیدا کی ، جس کی رات کی کروٹیں اس مقصد کے لیے بے سکون تھیں اور جس کی نم آنکھیں ہرصبح و شام آزادی وطن کے ترانے گاتی تھیں اور دلوں کے ساز کو چھیڑتی تھیں ، اور کانگریس کے اونچے لیڈروں میں جس نے سب سے آخر آخر کراہتِ خاطر کے ساتھ ملک کی تقسیم کو گوارا کیا تھا ، ڈاکٹر تارا چند مولانا آزاد کے بارے میں لکھتے ہیں : 

’’ اس مقصد کے لیے انہو ںنے اپنا سب کچھ قربان کردیا ، اپنی پوری قوت ، اپنی بے مثال خطابت ، اپنے متوازن نظریئے ، اپنے عاقلانہ مشورے ، اپنی وسیع النظر حب الوطنی ، اپنا ابلتا ہوا جوش ، اپنا احساس برتری ، اپنی مقصدیت ، یہ سب انہوں نے ہندوستان کی آزادی کی بھینٹ چڑھادیا‘‘ 

حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر تارا چند کا یہ اعتراف ایک ایسی حقیقت کااعتراف ہے ،جومہر نیم روز سے بھی زیادہ روشن اور تابناک ہے !

اور ہندوستان کی تاریخ آزادی ہمیشہ اس مرد مجاہد کو بھی یادرکھے گی ، جس نے آزادی کی اس جد وجہد میں بھر پور شرکت کی اور کانگریس ورکنگ کمیٹی کے آخری اجلاس میں بھی ، جو چھ سو ارکان پر مشتمل تھی ، تقسیم ملک کی تجویز کی شدت سے مخالفت کی ؛ لیکن ایک آواز بھی اس کی تائید میں نہ اٹھ سکی ، میری مراد مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ سے ہے ، افسوس کہ ان شہداء قوم اور جاں نثاران ارض و طن کا نام تک آج زبان پر نہیں آتا ؛ لیکن یہ سعید روحیں آج کے ہندوستان سے ضرور کہتی ہوں گی کہ : 

تیرے نکھرے عارضوں میں ، تیرے سنورے گیسوؤں میں 

میری صبح کی چمک ہے ، میرے شام کی سیاہی 

تجھے گر یقین نہ آئے تو میں آئینہ دیکھا دوں 

تیرا حسن دے رہاہے میرے عشق کی گواہی 

سلامتی ہو ان مجاہدین آزادی پر ، ان کی روحوں پر ، ان کی خواب گاہوں پر کہ ان کی شہادت کے خون ولہو کی سرخی نے آج ان کے وطن کو لالہ زار بنادیا ہے ، غلامی کی زنجیریں کٹ چکی ہیں ، غیر ملکی بادشاہت کے آہنی لباس تار تار ہو چکے ہیں ، ان میںکچھ نے اپنی آنکھوں کو اس آزادی سے ٹھنڈا کیا ہے ، کچھ حسرتوں کے ساتھ خدا کے ہاں پہلے ہی چلے گئے ، کچھ کے نام تاریخ کے صفحات نے یاد رکھے ہیں اور کتنے ہی ہیں کہ خدا کے سوا ان کی قربانیوں ، فداکاریوں اورجانبازیوں کو کوئی نہیں جانتا ۔ 

ہم فرزندان وطن کا فرض ہے کہ آزادی کے اس چراغ کو روشن رکھنے کی کوشش کریں ، ہم ذات پات ، مذہب و برادری اور زبان کی سطح سے اوپر اٹھ کر ایک سچے اورایماندار ہندوستانی ہونے کا ثبوت دیں ، یہاں اقلیتیں خود کو محفوظ باور کریں ، اکثریت اور اقلیت کے لیے انصاف کا ایک ہی پیمانہ ہو ، وہ مزدور کہ بلند وبالا عمارتیں ، سرسبز و شاداب باغات ، خوبصورت نہریں اور صاف و شفاف سڑکیں سب انہیں کے پسینوں کی رہین منت ہیں ، ان کو ان کا حق ملے ، اور ہر گھر میں مسرت و خوشحالی اور انصاف کا چراغ جل سکے ، وہ آزادی جو دلوں کو سکون دے ، جوامتیاز و تفریق کی دیواروں کو ڈھادے ، جو بلند وبالا عمارت میں رہنے والوں میں بھی غریبوں کی جھونپڑیوں سے محبت پیدا کردے ، جہاں مذہب نفرت کی بنیاد نہ ہو ؛ بلکہ مختلف مذاہب کی رنگارنگی اس کو گلدستہ کا مصداق بنادے کہ : 

گل ہائے رنگارنگ سے ہے زینت چمن