ہم بھی دلِ خراب سے بیزار ہیں مگر
کیا کیجئے کہ بات نہیں اختیار کی
افرا تفری اور خوف کا ماحول
تلنگانہ ریاست اور خاص طور پر گریٹر حیدرآباد کے حدود میں ایسا لگتا ہے کہ موت کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ہر سمت موت دکھائی دے رہی ہے اور سارے شہر بلکہ ساری ریاست میں ایک طرح کی افرا تفری مچی ہوئی ہے اور عوام میں خوف کا ماحول پیدا ہوگیا ہے ۔ لوگ ایک دوسرے کی خیریت پوچھنے میں بھی گھبراہٹ کاشکار ہو رہے ہیں۔ شہر کا کوئی علاقہ یا محلہ ایسا نہیں رہ گیا ہے جہاں لوگ کورونا کی وباء سے پریشان نہیں ہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ شہر کا تقریبا ہر گھر کورونا کی وباء سے یا تو متاثر ہے یا پھر خوفزدہ ہے ۔ بے شمار خاندان ایسے ہیں جنہوں نے اپنے رشتہ داروں کو کھودیا ہے اور بہت سے اور بھی ایسے ہیں جنہیں اپنے کسی عزیز کے کھوجانے یا بچھڑ جانے کا خوف نہ ستا رہا ہو۔ ساری افرا تفری کے ماحول میں ایسا لگتا ہے کہ تلنگانہ حکومت اور شہر کے عوامی نمائندے عوام سے عملا لا تعلق ہوگئے ہیں۔ انہیں نہ عوامی صحت کی کوئی فکر رہ گئی ہے اور نہ خوف کے ماحول سے انکا کوئی تعلق رہ گیا ہے ۔ حکومت اور عوامی نمائندے عوام کو ان کے حال پر چھوڑ چکے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں رہ گیا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ سرکاری اور خانگی دواخانوںمیں یا تو لوٹ مار مچی ہوئی ہے یا پھر موت منڈلا رہی ہے ۔ سرکاری دواخانوں میں تو انتہائی ابتر ترین صورتحال ہے ۔ وہاں پہلے تو مریضوں کو بھرتی کروانا خود ایک جنگ کرنے سے کم نہیں رہ گیا ہے ۔ اگر کسی کو انتہائی تگ و دو کے بعد وہاں دخل کربھی لیا جاتا ہے تو یہ یقین نہیں رہ گیا ہے کہ وہاں ٹھیک طرح سے علاج بھی ہوگا ۔ اگر کسی کی وہاں موت ہوجائے تو نعشیں تک بدلی جا رہی ہیں۔ رشتہ داروں اور افراد خاندان کو یہ تک یقین نہیں ہے کہ انہیں ان کے فرد خاندان کی نعش بھی ملے گی یا نہیں۔ اس ساری صورتحال کے باوجود حکومت اپنے کام کاج میں مگن ہے ۔ اسے صرف اپنی آمدنی کی فکر رہ گئی ہے اور عوام کی صحت یا ان کی زندگیوں کی کوئی پرواہ نہیں رہ گئی ہے ۔ حکومت یومیہ اساس پر صرف متاثرین اور اموات کے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے بری الذمہ ہو رہی ہے اور عوام سے کہا جا رہ اہے کہ خود اپنے طور پر احتیاط کرتے ہوئے اس وباء سے بچنے کی کوشش کریں۔
حکومت نے خانگی دواخانوں کیلئے اخراجات کا ایک مقررہ چارٹ جاری کیا ہے لیکن شائد ہی کوئی ایسا دواخانہ رہ گیا ہو جہاں اس چارٹ پر عمل کیا جا رہا ہو ۔ خانگی دواخانوں میں پہلے تو عوام کی جیب ٹٹولی جا رہی ہے ۔ اگر کوئی غریب وہاں پہونچ جائے تو مختلف بہانے کرتے ہوئے انہیں شریک نہیں کیا جا رہا ہے ۔ بیڈس کی کمی کا بہانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اگر کوئی دولتمند رجوع ہوجائے تو اس کی معاشی حالت کا اطمینان کرنے کے بعد اسے فوری وارڈ ‘ بستر اور علاج سب کچھ مہیا کیا جا رہا ہے ۔ اس سب کیلئے لاکھوں روپئے اینٹھے جا رہے ہیں اور لوگ اپنی صحت اور جان کی خاطر خانگی دواخانوں کی لوٹ مار برداشت کرنے کو مجبور ہیں۔ جو غریب عوام ہیں و ہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔ کئی معاملات میں تو ایسا ہو رہا ہے کہ مختلف دواخانوں کے چکر کاٹتے کاٹتے کچھ مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھ رہے ہیں۔ اگر اس صورت میں کوئی کسی دواخانہ میں احتجاج کرتا ہے یا اپنے کسی کے جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے پر غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے تو دواخانہ سے جواب طلب کرنے کی بجائے الٹا عوام پر مقدمات ٹھونسے جا رہے ہیں۔ ساری صورتحال اس بات کو واضـح کرتی ہے کہ عوام کی کسی کو پرواہ نہیں ہے ۔ جو بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں وہ محض عوام کو گمراہ کرنے اور بیوقوف بنانے کیلئے ہیں اور اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے یا پھر اپنے اقتدار یا کرسی کی خاطر عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے اور جب ان کا مقصد پورا ہوجاتا ہے تو عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔
آج نہ کوئی سرکاری نمائندہ اور نہ کوئی عوامی نمائندہ عوام کے مسائل میں حصہ دار بننے کو تیار ہے اور نہ ہی کوئی نمائندہ عوام کے مسائل اور تکالیف پر حکومت کو توجہ دلانے کیلئے تیار ہے ۔ انہیں اپنے مفادات عزیز ہیں ۔ حکومت سے دوستی اور خیرسگالی زیادہ عزیز ہے ۔ عوام کی کوئی فکر نہیںہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور عوامی نمائندے اپنی دوسری تمام تر مصروفیات کو ترک کرتے ہوئے عوام کی فلاح کیلئے سرگرم ہوجائیں جس کی ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ جس کی وہ دہائیاں دیتے نہیں تھکتے ہیں۔ عوام کو حالات کی مار کھانے کیلئے چھوڑدینا ان کے مسائل اور پریشانیوں میں ایک اور ستم ظریفی سے کم نہیں ہے ۔ عوام میں جو افرا تفری مچی ہوئی ہے اور جو خوف کا ماحول ہے اس کو بہتر میڈیکل سہولیات کی فراہمی اور عوام کی پریشانیوں کی داد رسی کرتے ہوئے دور کیا جانا چاہئے ۔
