اللہ تعالی نے مسجدو ں کی تعمیر کا کام انبیا علیہم السلام سے لیا

   

مساجد کی حفاظت اور خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہیں، حافظ محمد صابر پا شاہ قادری کا خطاب
حیدرآباد 6 دسمبر (پریس نوٹ ) ۔ حافظ محمد صابر پا شاہ قادری نے بتایا کہ کائنات میں سب سے پہلی مسجد خانہ کعبہ ہے، مسجدوں کے ذریعے ہی مسلمانوں کو قوت، طاقت، رہنمائی اور رہبری ملتی ہے، مسجدیں صرف عبادت کا مقام نہیں ہیں بلکہ وہ اسلامی تعلیمات کا آئینہ دار ہیں،عقیدہ توحید جو اسلام کی بنیاد ہے اس کی عملی شکل مسجد میں دیکھنے کو ملتی ہے، اسی طرح مساوات اور برابری بھی جیسی اور جتنی مسجد میں ہے دنیا کی کسی عبادت گاہ میں نہیں ہے، مسجد میں امیرو غریب، عالم وجاہل، حاکم و محکوم اور بادشاہ ورعایا سب ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں، اسلام کا یہ جو اعلان ہے کہ’’کسی عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی پر، کالے کو گورے پر، گورے کو کالے پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے‘‘ اس کی بہترین تصویر مسجد میں نظر آتی ہے، مسجدوں سے ایمان والوں کو دین کا شعور ملتا ہے، مسجدیں ایمان واسلام، محبت واخوت، عدل ومساوات، خیر خواہی اور غم گساری، صدق وصفا اور مہر ووفا کا مرکز ہیں۔ مسجد کی بڑی اہمیت اور عظمت ہے، اس لئے کہ یہ اللہ پاک کی بندگی، اس کے ذکر اور قرآن پاک کی تلاوت کا مقام ہے، جس جگہ اللہ تعالی کو یاد کیا جائے، بندگی کے سجدے ادا کئے جائیں اور اللہ تعالی کو پکارا جائے، اس جگہ سے بڑھ کر اور کون سی جگہ ہوسکتی ہے! جس طرح انسانوں کا نصیب ہوتا ہے اسی طرح زمین کے ٹکڑوں کا بھی نصیب ہوتا ہے، ہر زمین کے ٹکڑے کا مقدر اللہ کا گھر بننا نہیں ہے، اللہ پاک زمین کے جس حصے کو چاہتا ہے اپنا گھر بنانے کیلئے چن لیتا ہے اور وہ زمین کا ٹکڑا عزت، شرف اور عظمت حاصل کرلیتاہے، حدیث شریف میں ہے کہ جس طرح تم آسمان کے ستاروں کو چمکتا ودمکتا دیکھتے ہو، آسمان والے زمین پر قائم مسجدوں کو اسی طرح روشن اور منور دیکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے مسجدو ں کی تعمیر کا کام انبیا علیہم السلام سے لیا، قرآن پاک میں خانہ کعبہ کے بارے میں یہ بات ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اس کی تعمیر فرمائی، ارشاد ربانی ہے:وہ بھی کیا وقت تھاجب ابراہیم ؑ خانہ کعبہ کی بنیادیں اونچی کررہے تھے اور(ان کے ساتھ ان کے بیٹے)اسماعیل ؑ بھی اور وہ دونوں ان الفاظ میں اللہ سے دعا کررہے تھے:) اے ہمارے پالنے والے! ہم سے (اس خدمت کوقبول فرمالے، بے شک تو ساری فریادیں)سننے والا (اور فریاد کرنے والوں انسانوں کے حالات جاننے والا ہے۔اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذریعے مسجد اقصی کی تعمیر ہوئی، اور کائنات کے سب سے عظیم پیغمبر حضرت محمد مصطفی ؐ نے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد مسجد نبوی کی بنیاد رکھی اور اس مسجد کی تعمیر میں صحابہ کرام کے ساتھ خود حضور اکرمؐ بھی شریک ہوئے، تعمیر کے وقت خود آپ بھی پتھر اٹھا کر لاتے تھے، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ آپ زحمت نہ فرمائیں، مسجد کی تعمیر کیلئے ہم کافی ہیں، اس پر حضور اکرم ؐنے یہ بات ارشاد فرمائی تھی کہ جس طرح تم اجر کے محتاج ہو، میں بھی اللہ کے اجر کا محتاج ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر کسی شخص کی مسجد میں آمد ورفت رہتی ہے تو تم اس کے ایمان کی گواہی دو‘‘! صرف آمدورفت پر ایمانی شہادت کی تعلیم دی گئی ہے،اس سے آگے بڑھ کر اگر کوئی مسجد کی خدمت میں مصروف رہتا ہو تو اس کے کیا فضائل ومناقب ہونگے؟ کسی کو مسجد کی خدمت نصیب ہوجائے تو یہ ایک بڑی نعمت ہے، اس پر جس قدر شکر گزاری کی جائے کم ہے مشرکینِ مکہ بھی مسجد ِ حرام کی تعمیر اور اس کی دیکھ بھال کو اپنے لیے قابلِ فخر تصور کرتے تھے، اور جابجا اس کا اظہار بھی کرتے تھے؛ لیکن قرآنِ کریم نے اس کا رد کیا کہ بغیر ایمان کے صرف تعمیرِمسجد انسانی نجات کے لیے کافی نہیں، آج ذمہ دارانِ مساجد ، مساجد کی دیکھ بھال میں مساجد کی نگرانی سے متعلقہ امور کی انجام دہی میں تندہی کا مظاہرہ تو کرتے ہیں؛لیکن ساتھ ہی کچھ نقائص کچھ خامیاں بھی ہیں جن کی نشاندہی مقصود ہے جن کے ازالہ سے انشاء اللہ یہ خدمت مزید سرخروئی کا باعث ہوگی۔قراٰنِ کریم میں21 سے زائد بار مسجد کا ذکر آیا ہے۔ نیز مساجد کو آباد کرنے، ان میں اعتکاف کرنے، انہیں صاف ستھرا رکھنے، ان میں ذِکرُ اللہ سے نہ روکنے اور اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح کثیر احادیث میں بھی مساجد کی اہمیت، ان کے آداب، فضائل اور احکام کا بیان ہے۔ اللہ کریم کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے: جو مسجد سے محبت کرتا ہے اللہ ربُّ العزّت اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔