دکن میں اوقاف کا تحفظ ، حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ ؒ کاعظیم کارنامہ
UMEED پورٹل پر اندراج ، ائمہ و خطباء کی گرانمایہ ذمہ داری
اسلامی تعلیمیات میں وقف ایک ایسا جامع اور پائیدار کارخیر ہے جو انفرادی عبادت کو اجتماعی فلاح و بہبود میں تبدیل کردیتا ہے ۔ یہ محض مالی صدقہ نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر سماجی ، تعلیمی اور معاشی نظام ہے جو اُمت مسلمہ کی تعمیر ، وحدت ، اجتماعی اشتراک اور ترقی کا ضامن ہے ۔ ’’وقف‘‘ درحقیقت انسان کی دیرینہ خواہش سے مربوط ہے کہ وہ مال و دولت کو صرف وقتی استعمال کے بجائے دائمی نفع اور اجر و ثواب کا ذریعہ بناتا ہے۔ اس لحاظ سے وقف ’’عبادت ‘‘ معاشرت اور خدمت خلق کا حسین امتزاج ہے ۔ قرآن کریم میں اگرچہ ’’وقف کا لفظ صریح طورپر استعمال نہیں ہوا لیکن متعدد آیات اس کے اُصولی تصور کو بیان کرتی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’تم نیکی کو نہیں پاسکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے اﷲ کی راہ میں خرچ نہ کرو ‘‘ ۔ ( آلِ عمران : ۹۲)
وقف کا مطلب ہے کہ کسی چیز کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں اس طرح مخصوص کردینا کہ اس سے ذاتی فائدہ ختم ہوجائے اور اس کا نفع عام مسلمانوں یا کسی کارِ خیر میں مسلسل جاری رہے ۔ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ’’جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں سوائے تین چیزوں کے : صدقہ جاریہ ، وہ علم جس سے نفع اُٹھایا جائے اور نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے ‘‘۔ ( مسلم )
جب مدینہ منورہ میں پانی کی قلت کی شکایت ہوئی اور ’’بئر رومہ ‘‘ سے موسوم کنویں کا مالک یہودی تھا ، مسلمانوں کو پیسوں کے عوض پانی فروخت کرتا تھا رسول اﷲ ﷺ نے اس کو خریدنے کی ترغیب دی اور جنت کی بشارت دی تو حضرت عثمان بن عفانؓ نے اس کو آدھا خریدکر مسلمانوں کیلئے وقف کردیا ، ایک دن حضرت عثمانؓ کی باری ہوتی دوسرے دن وہ یہودی کے مصرف میں ہوتا جب حضرت عثمان نے مسلمانوں کیلئے وقف کردیا تو یہودی کے حصہ کے دن کوئی بھی جانے نہیں لگا بناء بریں وہ مکمل کنواں فروخت کردیا ۔ ( ترمذی) یہ اسلام کے اولین وقف میں شمار ہوتا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے مشورہ کے بعد خیبر کی زرخیز زمین وقف کی تاکہ اس کی آمدنی غریبوں کی خوراک ،غلاموں کی آزادی ، مجاہدین کی امداد اور مہمانوں کی ضیافت کے لئے خرچ ہو ۔
اسلامی تاریخ میں وقف کا نظام آغاز ہی سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔ خلفائے راشدین کے دور میں وقف کے ذریعہ مساجد ، مدارس ، مسافر خانے ، کنویں قائم کئے گئے ۔ بنواُمیہ اور بنو عباس کے ادوار میں یہ نظام مزید منظم ہوا حتی کہ سلطنتِ عثمانیہ میں وقف کو باضابطہ ایک سرکاری ادارہ بنادیا گیا۔ ہندوستان میں اسلام کی آمد کے ساتھ ہی اسلامی اوقاف کا سلسلہ شروع ہوگیا اور جب باضابطہ اسلامی سلطنت قائم ہوگئی تو اس کے مختلف ادوار میں اسلامی اوقاف میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ چھ سات صدیوں پر محیط مضبوط اسلامی حکومت کے عہد میں مساجد ، مدارس ، خانقاہیں ، مسافر خانے ، یتیم خانے ، ہسپتال و دیگر اغراض و مقاصد کیلئے اوقاف کا فروغ ہونے لگا اور مستحکم ادارہ جات اُن کا نظم و نسق چلاتے رہے ۔ جب برطانیہ نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو مسلمانوں کے تعلیمی ، دینی اور سماجی اداروں کے ساتھ ساتھ وقف کا نظام بھی شدید ضرب سے دوچار ہوا ۔ انگریز حکومت نے وقف املاک کی قانونی حیثیت پرسوالات اُٹھائے ۔ بہت سی زمینیں ضبط کیں ، مختلف قوانین نافذ کئے جنھوں نے اوقاف کے آزادانہ نظم کو محدود کردیا تاہم علماء اور مسلمان مفکرین و عمائدین کی مسلسل جدوجہد سے ۱۹۱۳ء میں Muslim Waqf Validating Act منظور ہوا ۔ جس نے خاندانی اوقاف کی قانونی حیثیت کو بحال کیا بشرطیکہ وقف کی آمدنی کا کچھ حصہ مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لئے مختص کیا جائے ۔ تاہم ۱۹۲۳ ء کے مسلمان وقف ایکٹ کو وقف کے انتظام و انصرام کو قانونی دائرے میں لانے کی پہلی باقاعدہ کوشش سمجھی جاتی ہے ۔ اسی ایکٹ کی بنیاد پر بعد میں ۱۹۳۵ء اور ۱۹۵۴ ء کے وقف قوانین تیار کئے گئے جنھوں نے وقف کے تحفظ اور نظم و نسق کو مزید مضبوط کیا ۔ ہندوستان میں اسلامی اوقاف برطانوی سامراج کے زیراثر مختلف مراحل سے گذر رہا تھا وہیں دکن میں قائم آصفیہ سلطنت جو بلحاظ رقبہ (۶۹۸،۸۲) مربع میل پر محیط تلنگانہ ، آندھرا ، مرہٹواڑہ اور کرناٹکہ کے علاقہ جات پر مشتمل نیز ایک کروڑ چوبیس لاکھ آبادی والی اپنی ریاست میں حضرت شیخ الاسلام امام محمد انواراللہ فاروقی الملقب بہ خان بہادر و فضیلت جنگ بانی جامعہ نظامیہ علیہ الرحمۃ والرضوان کی نگرانی میںمذہبی اوقاف کا نظم و نسق اپنے عروج و کمال پر تھا ۔ آپ کے زیرانتظام صرف اسلامی اوقاف ، مساجد ، مدارس ، خانقاہیں ، مسافر خانے گنبدیں ، سرائیں اور عاشور خانے نہیں تھے بلکہ اہل ہنود کے جاترا ، منادر ، دھرم شالے ، ورثاس ، اگنی ہوتیر ، نند ادیب ، سدا برت خدمت مٹھ ، پوچاری گیری وغیرہ شامل تھے ۔ آپ نے متذکرہ محکمہ کو اپنی انتظامی صلاحیتوں سے غیرمعمولی مضبوط و مستحکم بنادیا تھا ۔ بناء بریں آپ کے وصال کے بعد مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی ’’صدر الصدور‘‘ کے عہدہ پر کارگزار ہوئے تو انھوں نے آپ کے حسن انتظام سے حددرجہ متاثر ہوکر اپنی رائے رقم کی ۔ ’’محکمہ صدارت العالیہ نے ابتداء زمانۂ صدارت حضرت فضیلت جنگ مرحوم سے ۱۳۲۸ء ف تک علاوہ کلی اُمور کے جزئی اُمور پر بھی توجہہ کی ہے … یہ اُمور ایسے ہیں کہ انتطامی نقطہ نظر سے شمار میں آنے کے قابل ہیں اور ان سے اس امر کا پتہ چلتا ہے کہ حضرت فضیلت جنگ کی انتظامی نظر بھی بہت وسیع تھی اور انھوں نے محکمہ صدارت العالیہ میں انتظام کی ایسی داغ بیل ڈالدی ہے کہ اس کی وجہ صدارت العالیہ بھی نہ صرف شرعی بلکہ انتظامی حیثیت سے باضابطہ محکمہ سمجھا جاتا ہے ۔ خداوند تعالیٰ مسلمانوں کی طرف جناب مغفور کو جزائے خیر بخشے ‘‘ ۔ (انوارالانوار مؤلفہ حضرت قطب معین الدین انصاری )
۱۹۴۷ ء میں ہندوستان کی آزادی کے بعد ۱۹۵۴ ء میں پہلا جامع وقف قانون منظور کیا گیا جس کے تحت ہر ریاست میں وقف بورڈ تشکیل دینے ، وقف املاک کی باقاعدہ رجسٹریشن ، انتظامی اختیارات کی وضاحت ، وقف ٹریبونلز کے قیام ، وقف املاک کے تحفظ اور بازیابی کے مؤثر اقدامات شامل تھے ۔ وقف ایکٹ 1954، 1995 ، 2013 ، 2025 کے تحت مختلف اصلاحات لائی گئیں تاہم صحیح معنی میں نہ اس کا تحفظ ہوسکا اور نہ ہی اس کا نظم و نسق مسلمانوں کی معاشی ، تعلیمی اور فلاحی ترقی کا ضامن بن سکا ۔ حکومت ہند کی وزارت اقلیتی اُمور نے اوقاف کے تحفظ کے لئے ایک اصلاحی قدم اُٹھاتے ہوئے (UMEED) پورٹل (UMEED: Unified Waqf Management, Empoverment, Efficiency & Development) کا آغاز کیا ہے جس کے ذریعہ سے تمام وقف جائیدادوں کی ڈیجیٹل انوینٹری اور جیوٹیگنگ کی جائیگی تاکہ ہر زمین اور جائیداد کا مقام اور ملکیت محفوظ رہے ۔ نیز اس پورٹل میں بیواؤں ، یتیموں اور مطلقہ خواتین کے لئے علحدہ ماڈیول بھی شامل کیا گیا جس کے ذریعہ یہ آن لائین درخواست دے سکتے ہیں اور امداد براہ راست حاصل کرسکتے ہیں۔ ۵؍ ڈسمبر ۲۰۲۵ ء سے قبل متذکرہ پورٹل پر اوقافی جائیدادوں کا اندراج نہ کیا گیاتو ملت کا یہ عظیم سرمایہ اپنا قانونی حق کھوسکتا ہے اور تنازعات ، قبضے اور قانونی دشواریوں کا شکار ہوسکتا ہے ۔ واضح رہے کہ ہندوستان میں اسلامی اوقاف ، ملت اسلامیہ کا اجتماعی سرمایہ ہے جس کی نظیر دیگر ممالک میں مشکل ہے ۔ حکومتی ریکارڈ کے مطابق آٹھ لاکھ سے زائد اوقافی جائیدادیں نولاکھ سے زائد ایکڑ پر مشتمل ہیں جنکی مالیت ایک لاکھ کروڑ سے زائد بیان کی گئی ہے ۔ اس کی حفاظت ، دینی ، اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے ۔ اگر ہم نے آج اس کی حفاظت نہ کی تو ہم اپنے آباء و اجداد کے دینی ورثہ کی حفاظت سے غفلت برتنے کے عظیم جرم کے مرتکب ہوںگے ۔ اگر ہم نے سنجیدگی سے اس کو منظم کیا تو یہی وقف اُمت کی دوبارہ بیداری اور ترقی کا نقطۂ آغاز بن سکتا ہے۔