پی چدمبرم
ہندوستان میں اسرائیل ، این ایس او گروپ کی جانب سے تیار کردہ جاسوسی سافٹ ویر پیگاسس اسپائی ویئر استعمال کیا گیا اور اس کا استعمال سیاسی قائدین (اپوزیشن ارکان اور وزراء) ججس صاحبان، اعلیٰ سرکاری عہدیدار طلبہ تنظیموں کے قائدین ، مہذب سماج کے جہد کاروں، صحافیوں اور تاجرین و صنعت کاروں (کاروباری حضرات) کی جاسوسی میں کیا گیا۔ دلچسپ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت یا سرکاری ایجنسیوں کی جانب کی گئی اس جاسوسی کے عمل پر ہورہے مباحث پر وضاحت کیلئے این ایس او نے کوئی طویل بیان جاری نہیں کیا یا تفصیلی وضاحت کرنے کی زحمت نہیں کی بلکہ صرف چار الفاظ پر مشتمل ایک بیان جاری کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ سافٹ ویئر صرف حکومتوں اور سرکاری ایجنسیوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ این ایس او کے اس بیان کا ہندوستان کے تناظر میں کیا مطلب نکالا جانا چاہئے۔ یہ ہمارے عوام اچھی طرح جانتے ہیں اگر این ایس او یہ کہہ رہی ہے کہ وہ اپنا تیار کردہ جاسوسی سافٹ ویئر پیگاسس اسپائی ویئر صرف اور صرف حکومتوں اور سرکاری ایجنسیوں کو فروخت کرتی ہے تو پھر ہندوستان میں اس جاسوسی ویئر کو کس نے خریدا؟ حکومت نے یا پھر کسی سرکاری ایجنسی نے؟ اس سلسلے میں حکومت واضح جواب دینے سے جان بوجھ کر گریز کررہی ہے۔ این ایس او نے تاحال دو بیانات جاری کئے۔ ایک بہت ہی مختصر اور دوسرا چار الفاظ پر مشتمل بیان جسے ہم مختصر وضاحت بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اس نے حکومتوں اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کو سافٹ ویئر فروخت کئے جانے کا اعتراف ضرور کیا ہے۔ ساتھ ہی این ایس او نے اس جاسوسی ویئر کا استعمال کس طرح ہورہا ہے۔ اس عمل سے خود کو دور رکھا۔ اس سے لاتعلق کا اظہار کیا۔ اس کے خیال میں اس نے اپنا جاسوسی سافٹ ویئر حکومتوں اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کو فروخت تو کیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ بعض حکومتیں اور ان کی ایجنسیاں اس سافٹ ویئر کا استعمال کرسکتی ہیں۔ ہندوستانی تناظر میںراقم نے چند سوالات اٹھائے ہیں۔ ان سوالات کو پیش کرنے سے پہلے ایک انتباہ بھی ہے یعنی یہ بے چین کردینے والے سوالات ان لوگوں کیلئے نہیں ہیں جو سقراط یا منطقی اور دلائل پر مباحث کو پسند نہیں کرتے۔ مابقی دوسروں کیلئے سوالات ذیل میں پیش کررہا ہوں:
(1) آیا حکومت ہند یا اس کی کوئی ایجنسی این ایس او گروپ کی گاہک تھی یا ہے؟ یہ ایک سیدھا سادہ اور راست بازی پر مبنی سوال ہے۔ اس میں کوئی ہیرا پھیری نہیں۔ اس کا جواب صرف ’ہاں‘ یا ’نا‘ میں ہوسکتا ہے۔ بعض ناقابل وضاحت یا ناقابل بیان وجوہات کے باعث حکومت نے اس سوال کا راست جواب دینے سے انکار کیا ہے۔ اس کے برعکس حکومت، سوالات کے جواب دینے سے نہ صرف گریز کررہی ہے بلکہ اُس کے عجیب و غریب انداز سے ہر روز شبہات بڑھتے جارہے ہیں۔ اس معاملے میں حکومت کا رویہ عجیب ہے۔
(2) حکومت کا امکانی جواب ’’دی وائر‘‘ کی رپورٹ سے پیچیدہ ہوگیا ہے۔ ’’دی وائر‘‘ نے عالمی تحقیقات کی بنیاد پر رپورٹ پیش کی تھی۔ اس تحقیقات میں اس بات کا افشاء ہوا تھا کہ این ایس او گروپ کا ایک ہندوستانی گاہک (Client) بھی ہے، اب سوال یہ ہے کہ این ایس او کا Client ہندوستان نہیں ہے تو پھر کون ہے؟ اس بات میں حکومت یہ کہہ سکتی ہے کہ ہم این ایس او کے Client نہیں ہیں لیکن اس سے پھر ایک سوال پیدا ہوگا کہ اگر حکومت نہیں تو پھر وہ کون ہے جس نے NSO سے پیگاسس جاسوسی سافٹ ویر خریدا ہے۔ اس بارے میں بھی حکومت یہ کہہ سکتی ہے کہ میں نہیں جانتی کہ این ایس او کا گاہک کون ہے، اس پر ایک اور سوال پیدا ہوگا کہ آیا آپ این ایس او کے ہندوستانی گاہک کے بارے میں جاننے کیلئے بے چین نہیں ہیں کہ ہندوستانی گاہک کون ہے۔ اگر دیکھا جائے تو حکومت یہ نہیں جانتی کہ اس سوال کا جواب کیسے دیا جائے؟ اس طرح کے سوالات کے جوابات کچھ بھی ہوں۔ ان سے ایسے سوالات کی ایک زنجیر بن جائے گی یا سلسلہ چل پڑے گا جس کا جواب دینے کیلئے حکومت تیار ہی نہیں ہے۔
(3) اگر حکومت ہند یا اس کی کسی ایجنسی نے این ایس او سے اس کا جاسوسی سافٹ ویئر خریدا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نے یہ اسپائی ویر کب حاصل کیا؟ اگر حکومت کو خود پر اعتماد ہے کہ اس کا دامن بالکل صاف ہے۔ موقف بالکل واضح ہے تب وہ پہلے سوال کا نفی میں جواب دے سکتی ہے اور یہ سوال دوبارہ نہیں پیدا ہوگا تاہم اس سوال کا جواب بھی حکومت نے بعض وجوہات کی بناء پر دینے سے انکار کیا، اس لئے اس پر شکوک و شبہات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔
عجیب بے حسی :
(4) ایمنسٹی انٹرنیشنل اور فاربڈن اسٹوریز کی تحقیقات ایسے کئی افراد کی طویل فہرست کا انکشاف کیا ہے، جن کی جاسوسی کی گئی یا جن کے فون نمبرات امکانی جاسوسی کی فہرست میں شامل کئے گئے۔ چلئے! اس فہرست کو ایک طرف رکھ دیجئے اور صرف ان افراد کے کاموں پر توجہ مرکوز کیجئے جن کے فونس میں مبینہ طور پر جاسوسی سافٹ ویئر کے ذریعہ دراندازی کی گئی۔ ’’دی وائر‘‘ کے مطابق اس طرح کے افراد میں مرکزی وزیر آئی ٹی و ریلویز اشونی وشنو اور مرکزی وزیر پرہلاد پٹیل بھی شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس انکشاف سے حکومت، پریشان اور شرمسار کیوں نہیں ہے؟ بحیثیت شہری ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر مرکزی وزراء کے فونس میں جاسوسی سافٹ ویر کے ذریعہ دراندازی کی تو حکومت خود کو لاتعلق ظاہر کرنے کی اداکاری کیوں کررہی ہے؟ کیا یہ صحیح ردعمل نہیں ہوتا۔ اگر حکومت متعلقہ وزراء سے کہتی کہ ان لوگوں نے 2017-19ء کے دوران جو فونس استعمال کئے، انہیں فارنسک معائنے کیلئے پیش کرے لیکن حکومت نے اس معاملے میں کسی بے چینی اور فکر کا اظہار نہیں کیا۔آخر اس تمام قضیہ کے پیچھے کون کارفرما ہے اور حکومت نے کیوں بے حس رویہ اختیار کیا ہے، یہ ایسی چیزیں ہیں جس سے حکومت کے کردار پر شکوک و شبہات بڑھتے جارہے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور فاربڈن اسٹوریز کی تحقیقات کے بعد وقفہ وقفہ سے جو نتائج منظر عام پر آرہے ہیں، اس سے حکومتوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، لیکن حکومت ہند اپنی بے چینی اور پریشانیوں کو چھپا رہی ہے۔ وہ ایسے ظاہر کررہی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں بلکہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ این ایس او گروپ کا ہندوستانی گاہک موجود ہے اور پیگاسس جاسوسی سافٹ ویئر کے ذریعہ ہندوستان میں چند فونس کی دراندازی کی گئی، ان کی جاسوسی کی گئی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ این ایس او کے ہندوستانی گاہک کا نام بہت جلد منظر عام پر آجائے گا، اس بات کے بھی بہت زیادہ امکانات ہیں کہ جن افراد کی امکانی جاسوسی کی گئی، ان میں مزید بہت سارے لوگ اپنے فونس کے فارنسک معائنے کیلئے آگے بڑھیں گے جس سے انکشاف ہوگا کہ ان کے فونس میں پیگاسس جاسوسی سافٹ ویر خفیہ طور پر ڈالا گیا ہے۔ اس مرحلے پر حکومت کیا کرے گی؟ہندوستان بمقابلہ دیگر ممالک اس معاملے میں مودی کی زیرقیادت ہندوستانی حکومت نے جس طرح کے ردعمل کا اظہار کیا۔ وہ فراخدلانہ جمہوری ممالک جیسے فرانس حکومت کی جانب سے ظاہر کردہ ردعمل کے برعکس ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانول میکرون نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ تحقیقات کا اعلان کیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیٹ سے فون پر بات کی جس پر اسرائیلی وزیراعظم نے انہیں تیقن دیا کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے کی جارہی تحقیقات کے نتائج سے انہیں ضرور واقف کروایا جائے گا۔ اس کے فوری بعد اسرائیلی وزیر دفاع کے فرانس کا دورہ کرتے ہوئے فرانسیسی حکومت کو سمجھانے لبھانے کی کوشش کی۔ اسرائیلی حکومت کے عہدیداروں نے این ایس او گروپ کے دفتر کا دورہ کرتے ہوئے تحقیقات بھی کی۔ ہنگری کی حکومت نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا اب تو وہاں کی حکومت سے استعفے کے مطالبے کئے جارہے ہیں، لیکن ہندوستان میں حکومت نے کسی بھی قسم کی تحقیقات کی مخالفت کی ہے۔ پارلیمنٹ میں اس مسئلہ پر مباحث سے انکار کیا۔ بی جے پی ارکان نے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں حاضری رجسٹر میں دستخطیں کرنے سے انکار کردیا اور اجلاس میں خلل پیدا کیا۔ کیا اب بھی آپ کو فخر ہے؟