مذکورہ شیعہ وقف بورڈ(ایس سی بی ڈبلیو)نے پیر کے روز سپریم کورٹ کے اس فیصلے جس میں پانچ ایکڑ اراضی سنی وقف بورٹ کو مسجد کی تعمیر کے لئے فراہم کرنے کی ہدایت دی تھی‘ پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی ہے
لکھنو۔مذکورہ ایس سی بی ڈبلیو نے اپنے طور پر خیراتی اسپتال کی تعمیر کے لئے پانچ ایکڑ اراضی مانگی ہے۔
ایک پانچ رکنی بنچ جس کی نگرانی اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کررہے تھے نے متفقہ طور پر 9نومبر کے روز متنازعہ ساری اراضی جو2.77ایکڑ پرمشتمل ہے رام للا مورتی کے حق میں دینے کا فیصلہ سنایا
اور مرکز کو ہدایت دی کہ وہ ایودھیا میں کسی دوسرے مقام پر مسجد کی تعمیر کے لئے سنی وقف بورڈ کو پانچ ایکڑ اراضی فراہم کرے۔
ایودھیافیصلے سے قبل مذکورہ عدالت نے شیعہ وقف بورڈ کی جانب سے داخل کردہ ایس ایل پی کو بھی مسترد کردیاتھا جس میں فیض آبادکورڈ کے 1946کے فیصلے کو چیالنج کیاگیاتھا۔
بابری مسجد پر مالکان حق کے متعلق شیعہ وقف بورڈ کے دعوی کو فیض آباد کورٹ نے مسترد کردیاتھا۔
ایس سی بی ڈبلیو کی جانب سے دائرکردہ نظر ثانی کی درخواست میں کہاگیا ہے کہ ”درخواست گذار اس بات پر حیران ہے کہ اس عدالت نے جو احکامات دئے ہیں سنی وقف بورڈ کو پانچ ایکڑ اراضی جاری کرنے کی جو منہدم مسجد کے عوض ہے‘
جو دراصل ایک شیعہ جائیداد ہے کیونکہ اس کی تعمیر میرباقی نے کی تھی جو ایک شیعہ تھے‘لہذا مسجد سنی وقف نہیں بلکہ شیعہ وقف تھی“۔ چیرمن بورڈ سید وسیم رضوی نے کہاکہ مسجد شیعہ وقف تھی کیونکہ اس کی تعمیر میرباقی نے کی تھی جو کہ ایک شیعہ تھے۔
رضوی نے ایچ ٹی کو بتایاکہ ”لہذا یہ پانچ ایکڑ اراضی ہمیں (شیعہ وقف بورڈ) کو جاری کرنا چاہئے نہ سنی وقف بورڈ کو۔ یہی وہ اہم موضوع ہے جس کو ہم نے نظر ثانی کی درخواست میں اجاگر کیاہے“۔
چیرمن شیعہ وقف بورڈ رضوی نے کہاکہ بورڈ نے یہ بھی اشارہ دیاہے کہ پانچ ایکڑ اراضی کو سنی وقف بورڈ کودی جائے گی وہ ایودھیاکے حدود سے باہر دی جانی چاہئے۔
مذکورہ بورڈ نے یہ بھی ذکر کیاہے کہ ”شیعہ وقف بورڈ اراضی کا زیادہ حقدار ہے جو وہاں پر مسجد کی تعمیر کی بجائے ایک خیراتی اسپتال تعمیر کرنا چاہتا ہے‘ جو مجوزہ رام مندر کوآنے والے لوگوں کی طبی امداد اور لوگوں کی مدد کے لئے ہوگا“۔
فیصلے کے تیس دنوں کی معیاد کے اندر نظر ثانی کی درخواست داخل کرنے کا موقع تھا اور بورڈ نے آخری روز یہ درخواست پیش کی ہے