اے ایمان والو! نہ بلند کیا کرو اپنی آوازوں کو نبی (کریم) کی آواز سے … ( سورۃ الحجرات۔ ۲) 

   

اس آیت طیبہ میں بھی بارگاہ رسالت کے آداب کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ سابقہ آیت میں بتایا کہ قول و عمل میں سرور عالم (ﷺ) سے سبقت نہ کرو۔ ان سے گفتگو کا طریقہ بتایا جا رہا ہے کہ اگر تمہیں وہاں شرف باریابی نصیب ہو اور ہمکلامی کی سعادت سے بہرہ ور ہوتو یہ خیال رہے کہ تمہاری آواز میرے محبوب کی آواز سے بلند نہ ہونے پائے۔ جب حاضر ہوتو ادب و احترام کی تصویر بن کر حاضری دو۔ اگر اس سلسلہ میں تم نے ذرا سی غفلت برتی اور بےپروائی سے کام لیا تو سارے اعمال حسنہ ہجرت، جہاد، عبادات وغیرہ تمام کے تمام اکارت ہو جائیں گے۔ پہلی آیت میں بھی ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا سے خطاب ہو چکا تھا۔ یہاں خطاب کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ لیکن معاملہ کی نزاکت اور اہمیت کے پیش نظر دوبارہ اہل ایمان کو يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا سےخطاب کیا۔ انہیں جھنجھوڑا اور بتا دیا کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ بلکہ اس پر زندگی بھر کی طاعتوں، نیکیوں اور حسنات کے مقبول و نامقبول ہونے کا انحصار ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت فاروق اعظم ؓ نے آہستہ آہستہ کلام کرنے کو اپنا معمول بنا لیا۔ حضرت صدیق اکبر ؓ نے عرض کی یا رسول اللہ! مجھے اس ذات کی قسم جس نے آپ پر یہ قرآن نازل فرمایا میں تادم واپسیں حضور سے آہستہ آہستہ بات کروں گا۔ جب کوئی وفد حضور (ﷺ) سے ملاقات کے لیے مدینہ طیبہ پہنچتا تو حضرت صدیق اکبر (رض) ان کی طرف ایک خاص آدمی بھیجتے جو انہیں حاضری کے آداب بتاتا اور ہر طرح ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تلقین کرتا۔ (روح المعانی)