بلڈوزر ‘ سپریم کورٹ اور سیاسی قائدین

   

ملک کی سیاست میں کبھی عوامی مسائل اہمیت کے حامل ہوا کرتے تھے ۔ زرعی سرگرمیاں ‘روزگار ‘مہنگائی ‘ عوامی صحت اور لا اینڈ آرڈر جیسے مسائل پر سیاست ہوا کرتی تھی ۔ کبھی کسی مسئلہ پر حکومت کو برتری حاصل ہوتی تو کبھی اپوزیشن کی مہم کا عوام پر اثر ہوا کرتا تھا ۔ تاہم گذشتہ چند برسوں میں ملک کی سیاست کے مسائل ہی تبدیل کرکے رکھ دئے گئے ہیں۔ اب عوامی مسائل پر شائد ہی کہیں کوئی بحث ہوا کرتی ہے ۔ بحث صرف بیف پر ‘ برقعہ پر ‘ حجاب پر ‘ ہندو ۔ مسلمان پر ہونے لگی تھی ۔ گذشتہ دو برسوںسے اترپردیش میں بلڈوزر کی سیاست شروع ہوئی تھی ۔ کسی بھی مسئلہ پر احتجاج کرنے والوں کو اچانک ہی بلڈوزر کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا تھا ۔ ان کے مکان یا دوکان کو اچانک ہی بلڈوزر سے زمین بوس کرتے ہوئے انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا جا رہا تھا ۔ یہ سلسلہ صرف اترپردیش تک محدود نہیں رہا بلکہ ملک کی کئی ریاستوں میں جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے بلڈوزر کارروائی شروع ہوئی اور بے شمار دوکانات اور مکانات کو منہدم کردیا گیا ۔ ان تعمیرات کو غیر قانونی قرا ر دیتے ہوئے یہ کارروائی کی گئی جبکہ تعمیرات اگر غیر قانونی ہوںتو اس کو وجود میں آنے کا موقع دینے والے عہدیداروں کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چاہئے تھی لیکن صرف ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بناتے ہوئے یہ کارروائیاں کی گئیں۔ کہیں کسی کی جھگی جھونپڑی کا وجود مٹا دیا گیا تو کہیںکسی کی دوکان کا نام و نشان ختم کردیا گیا ۔ کہیں کسی پٹرول پمپ کو تہس نہس کردیا گیا تو کہیں کسی کے عالیشان مکان کو زمین بوس کردے گیا ۔ یہ ساری کارروائیاں ایک طرح سے محض مذہبی تعصب کی بنیاد پر کی گئیں۔ کئی سیاسی قائدین ان ماورائے عدالت کارروائیوں کو اپنا طرہ امتیاز قرار دینے سے بھی گریز نہیں کر رہے تھے ۔ چیف منسٹر کے عہدہ پر رہنے والوں کوبھی بلڈوزر بابا کا نام دیا گیا تھا ۔ ان کے انتخابی جلسوں میں بڑی شان سے بلڈوزر رکھے گئے تھے ۔ خود یہ سیاسی قائدین بھی بلڈوزر کو اپنی شناخت کے طور پر ظاہر کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہے تھے جبکہ وہ خود دستوری عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ ایک نتہائی منفی اور متعصب سوچ کا نتیجہ تھا ۔
سپریم کورٹ اور دوسری عدالتوں نے اس طرح کی کارروائیوں کو پسند نہیں کیا تھا اور ایسا کرنے والوں کے خلاف کچھ ریمارکس بھی کئے تھے ۔ اب سپریم کورٹ نے سارے ملک میں بلڈوزر کارروائیوں پر ایک طرح سے روک لگادی ہے اور کہا کہ عدالت کی اجازت کے بغیر کسی کی خانگی ملکیت پر بلڈوزر نہیں چلایا جاسکتا ۔ یہ پابندی یکم اکٹوبر کو آئندہ سماعت تک عائد کی گئی ہے ۔ سپریم کورٹ کا حکمنامہ سارے ملک کیلئے خوش آئند ہے اور اس سے ملک بھر میں بلڈوزر کی سیاست کو روکنے میں مدد ملے گی ۔ ماورائے عدالت کارروائیوں پر قابو پایا جاسکے گا ۔ کسی کی بھی خانگی املاک کو تباہی سے بچایا جاسکے گا اور سیاسی قائدین کو اپنی شناخت بہتر بنانے کیلئے جدوجہد کرنی پڑے گی ۔ عدالت نے سرکاری املاک ‘ سڑکوں اور راستوں پر تعمیرات کو منہدم کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے ۔ عوامی املاک کا تحفظ بہر صورت کیا جانا چاہئے لیکن مذہبی اور سیاسی تعصب کی وجہ سے کسی کی بھی خانگی املاک کو تباہ کرنے کا اختیار کسی کو بھی نہیں دیا گیا ہے اور عدالتی احکام کے نتیجہ میں ان املاک کا تحفظ یقینی ہوسکے گا ۔ سپریم کورٹ کے حکمنامہ سے جو قائدین بلڈوزر کی سیاست کر رہے تھے ان کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ انہوں نے ایک دستوری عہدہ پر فائز رہتے ہوئے بھی ایک منفی شناخت بنانے سے گریز نہیں کیا تھا اور بڑے ہی دھڑلے کے ساتھ بلڈوزر کارروائیوں کو اپنے کارناموں کے طور پر پیش کرتے ہوئے سیاسی روٹیاں سینکنے کی کوشش کر رہے تھے ۔
سیاسی قائدین کو چاہے وہ کسی بھی جماعت کے کیوںنہ ہوں اپنی شناخت اپنی مثبت پالیسی اور فیصلوںکے ذریعہ بنانے کی ضرورت ہے ۔ عوامی فلاح و بہبود کے کام کرتے ہوئے اپنے کارنامے عوام میں پیش کرنا چاہئے ۔ منفی سیاست کبھی کسی کیلئے فائدہ مند نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس کا ہندوستان میں کوئی جواز ہوسکتا ہے ۔ ملک میں عدلیہ ہے ا ور قانون ہے ۔ عدلیہ اور قانون کی بالادستی پر کسی کو سوال کرنے کا حق نہیں ہے ۔ عدالتوں کو نظر انداز کرنا انتہائی خطرناک رجحان ہوسکتا ہے اور اب سپریم کورٹ کی رولنگ کے بعد تمام حکومتوں کو اپنی کارروائیوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے اور جو غلطیاں انہوں نے کی ہیں ان کی پابجائی کی جانی چاہئے ۔