بندۂ مؤمن کی صفات

   

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ نے مؤمنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے عوض خرید لئے ہیں‘‘ (سورہ توبہ) اس خرید و فروخت کے بعد بندہ مؤمن کا جو رویہ بنتا ہے، وہ یہ ہے کہ اس میں چند صفات نمایاں ہوکر اُبھرتی ہیں، یعنی بیع کے بعد اب اگر بندۂ مؤمن میں یہ صفات پیدا ہوتی ہیں تو وہ معاملے کا سچا سمجھا جائے گا، ورنہ جھوٹا۔ ان صفات کو اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں بیان فرمایا: ’’اس کی طرف رجوع کرنے والے، اس کی بندگی کرنے والے، اس کی حمد و ثناء کرنے والے( اس کے دین کی اشاعت کے لئے) زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع و سجود کرنے والے، امر بالمعروف کرنے والے اور نہی عن المنکر کرنے والے اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے، تو اے نبی! آپ ان مؤمنوں کے لئے خوش خبری دے دیں‘‘۔ (سورہ توبہ۔۱۱۲)
پہلی صفت ہے ’’توبہ کرنے والے، رجوع کرنے والے‘‘۔ توبہ صرف گناہوں سے ہی نہیں ہوتی، بلکہ توبہ کا اس سے زیادہ ایک وسیع تر مفہوم اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر معاملے میں بندہ اللہ ہی کی طرف پلٹے، اسی سے رجوع کرے، خواہ گناہ سے معافی کا معاملہ ہو یا مصیبت میں کسی کو مدد کے لئے پکارنے کا۔ معاملہ محبت کا ہو یا اطاعت کا، ہر معاملہ میں بندہ مؤمن اللہ ہی سے رجوع کرتا ہے اور اسے بار بار اللہ ہی کا خیال آتا ہے۔ اس کے دل و دماغ پر اللہ ہی چھایا ہوا ہوتا ہے، اسے کوئی معاملہ پیش ہو تو وہ فوراً یہ سوچتا ہے کہ اس معاملے میں میرے پروردگار کی مرضی کیا ہے، وہ اس کو جائز قرار دیتا ہے یا نہیں؟۔ یہ ہے توبہ اور یہ ہے رجوع الی اللہ۔
دوسری صفت ہے ’’بندگی کرنے والے‘‘۔ بندہ مؤزن کا سرنیاز صرف خدا کے آگے جھکتا ہے، پورے اخلاص کے ساتھ وہ اس کی بندگی کرتا ہے۔ دنیا میں وہ خواہ کسی حیثیت میں کام کر رہا ہو، یہ دیکھتا ہے کہ میرے آقا کا حکم کیا ہے۔ مؤمن کا ہر رویہ حکم خداوندی کے تابع ہوتا ہے، اس کی زندگی کی ہر دستاویز پر حکم خداوندی کی مہر لگی ہوتی ہے۔
تیسری صفت ہے ’’حمد و ثناء کرنے والے‘‘۔ مؤمن کو خواہ خوشی ہو یا غم، رنج ہو یا راحت، پریشانی ہو یا شادمانی، وہ اللہ تعالی ہی کی حمد ثناء کرتا ہے، اسی کے قصیدے پڑھتا ہے، اسی کے گن گاتا ہے۔ تقدیر کے ہر خیروشر پر اس کا ایمان ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہی ہے۔ خوشی ہوتی ہے تو اسی کی حمد و ثناء کرتا ہے، اس کا شکروسپاس بجالاتا ہے۔ دکھ پہنچتا ہے تو وہ اس کا حکم سمجھ کر صبر کرتا ہے، اپنے ہر دکھ درد کو وہ اسی کے سامنے پیش کرتا ہے، اپنی ہر حاجت کو اسی کے سامنے رکھتا ہے، اسی سے دعائیں کرتا ہے، اس سے مناجاتیں کرتا ہے، اسی کو پکارتا ہے اور اسی کے آگے گڑگڑاتا ہے۔

چوتھی صفت ہے ’’سیاحت کرنے والے، زمین میں گردش کرنے والے، میدان جنگ و جہاد میں نکلنے والے، طلب علم میں شہر بہ شہر، قریہ بہ قریہ پھرنے والے، دین کی تبلیغ کے لئے دنیا کو توحید کا پیغام پہنچانے کے لئے بستی بستی کی خاک چھاننے والے، روزے رکھنے والے‘‘۔ سیاحت کے اصلی معنی تو چلنے پھرنے کے ہیں، ایک جسہ سے دوسری جگہ جانے کے ہیں، اسی معنی کی مناسبت سے مفسرین نے ’’السائحون‘‘ کے مختلف معانی بیان فرمائے ہیں، جب سب اپنی اپنی جگہ مناسب ہیں۔ عطا بن ریاح کہتے ہیں کہ اس سے مراد غازی اور مجاہدین ہیں۔ بعض نے کہا کہ اس سے مراد مہاجرین ہیں۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد طالب علم ہیں، جو طلب علم میں ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرتے ہیں۔ امام رازی نے اسی معنی کو پسند کیا ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ سفروسیاحت میں خوب تجربے ہوتے ہیں، دنیا کے نشیب و فراز سے گزرنا ہوتا ہے، جس سے تزکیہ نفس کی تکمیل ہوتی ہے۔ توکل علی اللہ کی مشق و تربیت ہوتی ہے، مختلف اہل علم سے استفادے ہوتے ہیں، دنیا کے انقلابات دیکھ کر معرفت رب حاصل ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد روزہ دار لیا ہے، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’میری امت کی سیاحت روزہ ہے‘‘۔ سفیان بن عینیہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ کھانے پینے اور جنسی لذتوں سے روزہ دار اسی طرح محروم ہو جاتا ہے، جس طرح مسافر ان لذتوں سے محروم ہوتا ہے، لیکن راقم کی سمجھ یہ بات آتی ہے کہ روزہ دار عالم ناسوت سے عالم ملکوت کی طرف سفر کرتا ہے، مادیت سے روحانیت کی طرف چلتا ہے۔ عالم ناسوت میں نفس کے تقاضوں کو چھوڑکر عالم ملکوت میں روحانی بالیدگی حاصل کرنے کے لئے چل پڑتا ہے، چنانچہ روزے میں نفس کے تقاضے مضمحل ہوجاتے ہیں اور عالم ملکوت میں روح محو رقص و سرود ہوتی ہے، اس لئے کہ روزے میں عالم ناسوت سے عالم ملکوت کی طرف سفر ہوتا ہے۔
پانچویں صفت ہے ’’رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے‘‘۔ ظاہر ہے اس سے مراد نمازی ہیں، کیونکہ رکوع و سجود نماز ہی کے ساتھ خاص ہیں اور نماز ہی کے بنیادی ارکان ہیں۔ مؤمنین کی معراج نماز ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح سفر معراج میں عالم ارضی سے عالم سماوی کی طرف سفر فرمایا تھا، اسی طرح بندہ مؤمن نماز میں پستی سے بلندی کی طرف جاتا ہے۔ سجدے کی انتہائی پست حالت میں پہنچ کر اس کو قرب خداوندی کی بلندی نصیب ہوتی ہے اور اسی نماز میں بندۂ مؤمن اور خدا کا راست تعلق قائم ہو جاتا ہے۔
چھٹی صفت ہے ’’امن بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ (یعنی اچھائی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے)۔ بندۂ مؤمن اپنے اصلاحی اور تبلیغی مشن کی وجہ سے دعوت الی اللہ کا ہمہ وقتی کارکن بن جاتا ہے۔ وہ بندگان خدا کو رشد و ہدایت کی طرف بلاتا ہے، فساد اور بگاڑ سے روکتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وہ سنت ہے، جس کو اللہ تعالی نے آپﷺ پر فرض قرار دیا تھا اور آپﷺ یہ کام آغاز وحی سے لے کر اس دنیا سے پردہ فرمانے تک مسلسل کرتے رہے۔ آپﷺ کا ہر کام دعوت الی اللہ کی فرع تھا۔ اپنے اسی بنیادی کام اور اپنی اس دائمی سنت کو آپﷺ نے امت کے ہر فرد کا فرض منصبی قرار دیا۔ اس صفت کے نتیجے میں ہر بندہ مؤمن گویا نائب رسول ہے۔ (اقتباس) (باقی تسلسل آئندہ)