غم دل کی زباں اہل تشدد کم سمجھتے ہیں
نہ دل کو دل سمجھتے ہیں نہ غم کو غم سمجھتے ہیں
مرکزی حکومت کے وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کو بی جے پی پوری طرح سے اپنے سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کرنے لگی ہے اور اس کے تعلق سے گودی میڈیا اور بی جے پی کے آئی ٹی سیل کی جانب سے بھی بے بنیاد تشہیر شروع کردی گئی ہے ۔ بنگال ہی نہیں بلکہ سارے ہندوستان میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج شروع کردیا گیا ہے ۔ مسلمان سڑکوں پر اترکر اس قانون کے خلاف احتجاج درج کروا رہے ہیں اور اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ تاہم بنگال میں جس طرح سے حالات کو بگاڑا جا رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ واضح پتہ چلتا ہے کہ اس صورتحال کو بی جے پی اپنے سیاسی اور انتخابی فائدہ کیلئے استعمال کر رہی ہے اور اس کا استحصال کیا جا رہا ہے ۔ بنگال میں ماضی میں بھی پیش آنے والے معمولی واقعات کو ایک بڑے مسئلہ کے طور پر بی جے پی نے پیش کیا ہے ۔ اس پر ممتابنرجی حکومت کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ آر جی کار ہاسپٹل میںپیش آئے ڈاکٹر کی عصمت ریزی کے واقعہ کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو بدنام کرنے کی سازش کی گئی تھی ۔ اس واقعہ کے ساتھ ملک میں درجنوں واقعات میڈیکل شعبہ سے تعلق رکھنے والی خواتین اور لڑکیوں کی عصمت ریزی اور قتل کے پیش آئے تھے اور یہ بیشتر بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں پیش آئے تھے تاہم بی جے پی نے ان واقعات پر کوئی ہنگامہ کھڑا نہیں کیا اور نہ ہی گودی میڈیا اور تلوے چاٹنے والے اینکرس نے ان واقعات کی کوئی تشہیر کرنا ہی ضروری سمجھا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی شرمناک واقعات کو بھی اپنے سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہے اور گودی میڈیا اس میں بی جے پی کا پوری طرح سے ساتھ دے رہا ہے ۔ عوامی مسائل اور عوامی مشکلات سے بی جے پی کو کوئی سروکار نہیں رہ گیا ہے اور گودی میڈیا بھی ان پر کسی طرح کی توجہ دینے کو تیار ہے ۔ یہ سب کچھ سیاسی روٹیاںسینکنے میںمصروف ہیں اور گودی میڈیا اپنے سیاسی آقاوں کے تلوے چاٹنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے میں مصروف ہے ۔ بنگال میں بھی یہی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی اور ترنمول کانگریس کے دوسرے قائدین جس طرح سے ریاست سے پارلیمنٹ تک مودی حکومت کے خلاف نبرد آزما ہیں اس کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے ساری توجہ بنگال پر مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ بنگال میںاسمبلی انتخابات کیلئے بھی وقت قریب آنے لگا ہے۔ ایسے میں بی جے پی ہر مسئلہ پر سیاست کرتے ہوئے حالات کا استحصال کرنے میں مصروف ہے ۔ اب جس طرح سے مرشد آباد اور جنوبی 24 پرگنہ ضلع میں تشدد کے واقعات پیش آئی ہیں ان پر ترنمول کانگریس کا کہنا ہے کہ اس کیلئے کچھ مرکزی ایجنسیاںاور بی ایس ایف کے کچھ اہلکار ذمہ دار ہیں اور انہوں نے مبینہ طور پر حالات کو بگاڑنے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ ترنمول کانگریس کا یہ الزام سنگین نوعیت کا ہے ۔ ایسے معاملات کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ ان الزامات کی اور دو اضلاع میں جو تشدد پھوٹ پڑا ہے ان کی مکمل غیرجانبداری کے ساتھ تحقیقات کی جانی چاہئیں اور حقائق کو منظر عام پر لایا جانا چاہئے ۔ یہ نہ صرف بنگال حکومت کو بلکہ مسلمانوں کے احتجاج کو بھی بدنام کرنے کی ایک سازش ہے ۔ سارے ملک میں مسلمان وقف ترمیمی بل کے خلاف پرامن انداز میں احتجاج کر رہے ہیں اور اس احتجاج کو سبوتاج کرنے کی سازشیں ہوسکتی ہیں۔ پوری طرح سے غیرجانبداری برت کر تحقیقات انجام دی جانی چاہئیں تاکہ تشدد کے حقیقی ذمہ داروں اور خاطیوں کا چہرہ بے نقاب ہوسکے اور انہیں عوام کے سامنے پیش کیا جاسکے ۔
جس طرح اترپردیش میں مظفر نگر فسادات سے قبل ہندو آبادی کے نقل مقام کرنے کی فرضی تشہیر کی گئی تھی اسی طرح اب مرشد آباد سے ہندو آبادی کے تخلیہ اور نقل مقام کرنے کی اطلاعات کو بھی بڑے پیمانے پر پیش کرتے ہوئے اس کا بھی استحصال کیا جانے لگا ہے ۔ کچھ لوگ ضر ور تشدد سے بچنے اپنے مقام کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور ان کی مدد کی جانی چاہئے ۔ انہیں آبائی مقام کو واپس لایا جانا چاہئے ۔ ان کی سلامتی اور حفاظت کو یقینی بنانا چاہئے ۔ ایسا کرنے کی بجائے بی جے پی اس کا سیاسی استحصال کر رہی ہے ۔ سارے معاملات کی انتہائی غیرجانبداری کے ساتھ تحقیقات کرتے ہوئے حقائق کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے ۔