نئی دہلی۔ اتوار کی ابتدائی ساعتوں میں مونو اگروال کو ان کے دوست محمد مشرف کا کئی سالوں بعد فون کال آیا۔ اچانک ائے فون سے جو بات سامنے ائے گی اس کے لئے سننے کو اگروال ذہنی طور پر ہرگز تیار نہیں تھے۔بجنو ر سے تعلق رکھنے والے تیس سالہ محمد مشرف نے بتایاکہ”باہر نکلنے کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے۔
کوئی موقع نہیں ہے‘ گھر کا دھیان رکھنا“۔ کچھ گھنٹوں بعد مشرف کی نعش کا انتظار کررہے اگروال نے کہاکہ انہوں نے اپنے دوست کو راستہ تلاش کرنے کا حوصلہ دینے کی کوشش کرتے رہے
۔اگروال نے کہاکہ ”عقب سے میں نے چلانے کی آوازیں سنیں“۔مشرف کا یہ کہتے ہوئے سنا”سانس لینا بھی دشوار ہے“۔ اترپردیش کے مراد آباد میں سجاد کا ایک فون کال موصول ہوا‘ جو پھنسے ہوئے ورکرس میں تھا‘اور اس فون کال سے صبح 5بجے والدین جاگے۔
ان کے چچا محمد الیاس نے کہاکہ ”اس کی آواز سسکیوں لیتی ہوئی تھی۔ وہ بارہا کہہ رہاتھا کہ عمارت میں آگ لگی ہے‘ بھیانک آگ ے اور اس کا بچنا مشکل ہے۔
اس کے والد اچانک بیدار ہوگئے“۔ فون کال منقطع ہوگیا اور پھر دوبارہ سجاد کو فون نہیں لگا۔ جلد ہی انہیں سجاد کی موت کی جانکاری موصول ہوئی۔ایک اورورکرراجو نے بھی اپنے دوست فرقان احمد کو اس وقت فون کیاجب وہ عمارت کے اندر پھنس گیا۔
احمد پڑوس میں ایک دوسری فیکٹری میں کام کرنے والے احمد نے کہاکہ صبح4:50بجے انہیں فون کال موصول ہوا تھا۔احمد نے کہاکہ ”اس کی آواز صاف سنائی نہیں دے رہی تھی مگر وہ اس کو بچانے کی گوہار لگارہا تھا۔وہ کہہ رہاتھا کہ اس کے اردگرد آگ او ردھواں ہے۔ میں نے استفسار کیاکہ آیا اس نے مددکے لئے پولیس کو فون کیا‘ مگراس کا جواب نہیں ملا۔مذکورہ بات چیت 30-40سیکنڈ سے زیادہ نہیں رہی ہے“۔
اتوار کے روز نارتھ دہلی کی عمارت میں لگی بھیانگ آگ میں پھنسے او ردم گھٹ کرنے اگ کی لپیٹ میں آنے والے 28سالہ بہار کے ساکن شاکر حسین جو تین بچوں کے والد ہیں اپنی حاملہ بیوی سے آخری وقت میں بات کرتے ہوئے کہاکہ”میں پھنس گیاہوں۔ زندہ نہیں بچوں گا“۔
ذاکر حسین جس کی عمر 32سال ہے کہ اپنے چھوٹی بھائی کی ایل این جے پی اسپتال میں موت کے منظر کو یاد کیا جو بھیانک آگ کی زد میں اگیا تھا جس نے 43لوگوں کی جان لے لی اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔ بہار کے مدھوبنی سے حسین کا تعلق ہے‘ جو اتوار کے روز شاپنگ کے لئے جانے کا منصوبہ بنایاتھا‘ مگر کچھ اور ہی واقعہ پیش آیا۔