مرنے کا مجھے غم ہے نہ جینے کی خوشی ہے
یہ زندگی کس موڑ پہ اب آکے رکی ہے
ملک میں لوک سبھا انتخابات کا عمل مکمل ہونے کے بعد کچھ توقف کے بعد اسمبلی انتخابات کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ ویسے تو جموںو کشمیر اور ہریانہ میں اسمبلی انتخابات کا عمل بھی شروع ہوچکا ہے اور اب وہاں سیاسی اور انتخابی سرگرمیاں عروج پر پہونچ گئی ہیں۔ پھر مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان کا عمل پورا ہونے کے بعد بہار میں اسمبلی انتخابات آئندہ سال ہونے والے ہیں۔ بہار کے انتخابات سیاسی اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ بہار میں نتیش کمار کی زیر قیادت جنتادل یونائیٹیڈ نے مرکز میں نریندر مودی حکومت کی تائید کی ہوئی ہے ۔ اس کی تائید پر ہی مرکزی حکومت کا استحکام منحصر ہے ۔ بہار میں گذشتہ اسمبلی انتخابات میں تیجسوی یادو کی زیر قیادت راشٹریہ جنتادل بہت معمولی فرق سے حکومت تشکیل دینے سے چوک گئی تھی ۔ بعد میں نتیش کمار نے آر جے ڈی اور کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا تھا ۔ پھر وقت بعد وہ دوبارہ بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد کا حصہ بن گئے ۔ اسی اتحاد میں چراغ پاسوان کی ایل جے پی بھی شامل ہے۔ ایل جے پی نے گذشتہ اسمبلی انتخابات میں جنتادل یو کے خلاف امیدوار نامزد کئے تھے ۔ چراغ پاسوان اور نتیش کمار میں سرد جنگ چلتی رہی تھی ۔ لوک سبھا انتخابات میں ان جماعتوں نے این ڈی اے کے بیانر تلے اتحاد کیا تھا اور اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں ان جماعتوں کا ایک دوسرے کے تعلق سے کیا موقف ہوتا ہے ۔ مخالف جماعتوں کے موقف یا ان کے استحکام سے قطع نظر راشٹریہ جنتادل کے لیڈر تیجسوی یادو اپنی انتخابی تیاریوں کا آغاز کرچکے ہیں۔ وہ عوام سے رابطوں کو بحال کرنے کی مہم شروع کر رہے ہیں۔ انہوں نے 10 ستمبر سے آبھار یاترا شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ یہ یاترا سمستی پور سے شروع ہوگی ۔ بہار کے مختلف اضلاع میں مختلف مراحل میں یہ یاترا جائے گی اور تیجسوی یادو عوام سے رابطے کرتے ہوئے اسمبلی انتخابات کا سامنا کرنے پارٹی کو تیار کرنے کی مہم چلائیں گے ۔ تیجسوی کو امید ہے کہ وہ ایسا کرتے ہوئے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرپائیں گے ۔
بہار کی سیاسی صورتحال کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ پیچیدہ دکھائی دیتی ہے ۔ نتیش کمار کی ہر معیاد میں ایک سے زائد مرتبہ انحراف کی روایت سے صورتحال بدلتی رہتی ہے ۔ بی جے پی ہو یا مہاگٹھ بندھن ہو ہر بار نتیش کمار کا ساتھ دیتے ہیں اور انہیں چیف منسٹر برقرار رکھتے ہیں۔ تیجسوی یادو کو بھی دو مرتبہ نتیش کمار کے ساتھ کام کرنے اور پھر اچانک ہی اقتدار سے محروم ہوجانے کا تجربہ ہوچکا ہے ۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ اسمبلی انتخابات کی تیاریاں کر رہے ہیں ۔ دوسری جانب چراغ پاسوان بھی اب عوامی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں ۔وہ مرکزی وزیر ہیں اور پارٹی ان کے کنٹرول میں آگئی ہے ۔ اس کے علاوہ انتخابی حکمت عملی کے ماہر سمجھے جانے والے پرشانت کشور بھی انتخابی سیاست میں داخلہ اور قسمت آزمائی کیلئے پر تول رہے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں بھی شروع ہوگئی ہیں۔ انہوں نے بھی بہار کے مختلف اضلاع کا دورہ کرتے ہوئے عوام سے رابطے کئے ہیں۔ بی جے پی اپنے مستقل ووٹ بینک کو مزید مستحکم کرنے کیلئے سرگرم ہو جائے گی ۔ اس صورتحال میں تیجسوی یادو کی آبھار یاترا بہت اہمیت کی حامل کہی جاسکتی ہے ۔ کانگریس اور آر جے ڈی اتحاد کو اسمبلی انتخابات کیلئے ایک جامع اور منظم حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے ۔ کسی بھی پہلو پر کمزوری کی گنجائش باقی نہیں رکھی جانی چاہئے جس سے بی جے پی یا پھر اس کی حلیف جماعتیں فائدہ اٹھاسکیں اور ایک بار پھر ریاست میں اقتدار پر نتیش کمار کا قبضہ ہوجائے ۔ تیجسوی یادو اس صورتحال کو سمجھتے ہیں۔
تیجسوی یادو کو بھی یہ احساس ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں بھلے ہی بہار کے عوام کی انہیں تائید نہ ملنے پائی ہو یا پھر بی جے پی ‘ نتیش کمار اور جیتن رام مانجھی کے اتحاد کے مقابلہ وہ زیادہ موثر ثابت نہ ہوئے ہوں لیکن جہاں تک اسمبلی انتخابات اور ریاست کی صورتحال کا سوال ہے تو بہار کے عوام ان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ انہیں چراغ پاسوان کی شخصیت کے اثر کو توڑتے ہوئے عوام سے اپنے رابطوں کو زیادہ مضبوط اور مستحکم کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہوں نے آبنھار یاترا کا منصوبہ بنایا ہے اور انہیں عوام سے رابطوں کیلئے اور کیڈر کے جوش و خروش میں اضافہ کیلئے مزید سرگرمی دکھانے کی ضرورت ہے۔