بی جے پی کی اوچھی سیاست

   

فریب دیتی ہوئی راہ پُرخطر کیلئے
تمہارا ساتھ مجھے چاہئے سفر کیلئے
بی جے پی اور اس کے قائدین ہمیشہ ہی اوچھی سیاست کیلئے جانے جاتے ہیں۔ سیاسی مخالفین کے خلاف نازیبا ریمارکس کرنا اور دوسروں کو نیچا دکھاتے ہوئے اپنی خامیوںاور کوتاہیوں کو پوشیدہ رکھنا ان کا ہمیشہ کا طریقہ کار رہا ہے ۔سیاسی فائدہ اور اقتدار کیلئے ملک کے قوانین اور دستوری گنجائش کا تک مذاق بنادیا جاتا ہے اور دستور میں تبدیلی کی باتیںکی جاتی ہیں۔ ہجومی تشدد کی تائید و حمایت کی جاتی ہے اور مجرمین کا ساتھ دیتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ ان کی گلپوشیاں کی جا تی ہیں اور متاثرین کے تعلق سے نازیبا ریمارکس کئے جاتے ہیں۔ عصمت ریزی کا شکار ہونے والی خواتین سے تک سوال کئے جاتے ہیں اور عصمت ریزی کے ملزمین کو بچانے کیلئے کئی طرح کے جواز تلاش کئے جاتے ہیں۔ بی جے پی اور اس کے کچھ قائدین تو خاص طور پر ہمیشہ سے اوچھے ریمارکس کرنے اور نازیبا باتیں کرنے کیلئے جانے جاتے ہیں۔ بی جے پی کے ان ہی قائدین میںاس کے ترجمان سمبت پاترا کا شمار ہوتا ہے ۔ وہ جنون کی حد تک فرقہ واریت کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے ذہنوں میں چبھنے والے مسلمانوں کو برداشت کرنے کیلئے تک یہ تیار نہیں ہوتے اور کسی نہ کسی طرح سے مسلم دشمنی کا اظہار کرنے میں ہی یقین رکھتے ہیں۔ جنوبی ریاست کرناٹک میں سدارامیا حکومت کی جانب سے سرکاری کنٹراکٹس میں اقلیتوں کو چار فیصد تحفظات فراہم کئے گئے ہیں۔ یہ تحفظات بھی ایک کروڑ روپئے تک کے سرکاری کاموں کے کنٹراکٹس میںدئے گئے ہیں۔ بی جے پی ان تحفظات کی وجہ سے چراغ پا ہوگئی ہے ۔ اس کے کئی قائدین اپنے حوش گنوا بیٹھے ہیں اور اس طرح کے ریمارکس کرنے لگے ہیں جس سے ان کی ذہنی سطح کا پتہ چلتا ہے ۔ ان کی اوچھی سوچ کا اظہار ہوتا ہے اور ان کی مسلم دشمنی کی بھی عکاسی ہوتی ہے ۔ ان چار فیصد تحفظات کو مسلمانوں کی خوشامد قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ یہ تحفظات محض مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ ساری اقلیتی برادریوں کیلئے فراہم کئے گئے ہیں۔ بی جے پی کو تکلیف تاہم صرف مسلمانوں سے ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کا وجود برداشت کرنے کو ہی تیار نہیں ہے ۔
کرناٹک میں سرکاری کنٹراکٹس میں اقلیتوں کو چار فیصد تحفظات جس وقت سے فراہم کئے گئے ہیں اس وقت سے بی جے پی کے کئی قائدین ریاستی اور قومی سطح تک نازیبا ریمارکس کرنے میں لگ گئے ہیں۔ اب پارٹی ترجمان سمبت پاترا نے ان تحفظات کیلئے قائد اپوزیشن لوک سبھا راہول گاندھی کو نشانہ بنایا ہے اور کہا کہ یہ تحفظات راہول گاندھی کی ایماء پر ہی فراہم کئے گئے ہیں۔ واقعتا اگر راہول گاندھی کی ایماء پر ہی چار فیصد تحفظات تمام اقلیتی برادریوں کو فراہم کئے گئے ہیں تب بھی یہ کوئی قابل مذمت بات نہیں ہے بلکہ یہ قابل ستائش بات ہے ۔ ان ہی تحفظات کے ذریعہ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔ بی جے پی سب کا ساتھ سب کا وکاس کا محض نعرہ دیتی ہے اور عملا سب کا وکاس کرنے کیلئے بالکل تیار نہیں ہے ۔ کانگریس اس معاملے میں عملی اقدامات کرتے ہوئے سماج کے پچھڑے ہوئے اور پسماندہ طبقات کو ترقی میں حصہ دار بنانے کی کوشش کر رہی ہے اور یہی بات بی جے پی کو ہضم نہیں ہو پا رہی ہے ۔ ان تحفظات کے مسئلہ پر بی جے پی نے راہول گاندھی کو عالمگیر راہول زیب قرار دیا ہے ۔ یہ بھی سمبت پاترا اور بی جے پی کی اوچھی اور منفی ذہنیت کا ثبوت ہے ۔ فرقہ پرستانہ ایجنڈہ کا حصہ ہے اور مسلم و اقلیت دشمنی کی مثال ہے ۔ اس طرح کی سیاست انتہائی قابل مذمت ہے اور اس کی ہر گوشے سے حوصلے شکنی کی جانی چاہئے ۔ سمام میں شعور بیدار ہونے کے بعد ہی شائد بی جے پی فرقہ پرستی کی سیاست ترک کرنے پر مجبور ہوگی ۔
جہاں تک ملک کی ترقی اور اس کے ثمرات کی بات ہے تو ملک کے ہر شہری اور ہر طبقہ کا اس میں حق ہے ۔ صرف چند تجارتی حواریوں کو اور انتخابی چندہ دینے والوں کی حمایت کرنا درست نہیں ہے ۔ ملک کے کارپوریٹس کو ہزاروں کروڑ روپئے کے قرضہ جات دئے جا رہے ہیں۔ پھر ان قرضہ جات کو معاف کیا جا رہا ہے لیکن ایک کروڑ روپئے تک کے کنٹراکٹس اگر اقلیتوں کو دئے جا رہے ہیں تو یہ قابل قبول نہیں ہو رہا ہے ۔ یہ بی جے پی کی ڈوغلی سوچ اور منفی سیاست کا ثبوت ہے ۔ بی جے پی کو اپنی پالیسی پر از سر نوغو ر کرنے کی ضرورت ہے اور منفی و بیمار ذہنیت کو ترک کرکے مثبت سوچ سے کام کرنا چاہئے ۔