صدر رحمان امامی نے اپنے سرکاری بیان میں کہا کہ اس اقدام کا مقصد “آبائی اقدار اور ثقافت کا تحفظ” ہے۔
مسلم اکثریتی تاجکستان حجاب پر پابندی عائد کرنے کے لیے تیار ہے جب ملکی پارلیمان نے اس قانون کی منظوری دے دی ہے جس میں اسے “اجنبی لباس” قرار دیا گیا ہے۔ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکومت عوامی مذہبیت کو ختم کرنے اور تاجک ثقافت کے فروغ کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
مزید برآں، وسطی ایشیائی ملک جہاں 95 فیصد سے زیادہ آبادی مسلمان ہے، نے ملک میں عید کے موقع پر پیسے مانگنے والے بچوں کی عیدی کے رواج پر بھی پابندی لگا دی ہے۔
حجاب پر پابندی ملک کی “سیکولر شناخت” کو فروغ دینے کی تازہ ترین پیشرفت ہے۔
صدر رحمان امامی نے اپنے سرکاری بیان میں کہا کہ اس اقدام کا مقصد “آبائی اقدار اور ثقافت کا تحفظ” ہے۔ اس سے قبل وہ حجاب کو غیر ملکی لباس بھی کہہ چکے ہیں۔
تاجک میں مقیم ایشیا پلس نیوز نے رپورٹ کیا کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو 8,000 سے 65,000 سومونی تک کے بھاری جرمانے کیے جائیں گے جو کہ 60,560 اور 5 لاکھ روپے کے برابر ہے۔ نئے قانون کی پابندی کرنے میں ناکام رہنے والے سرکاری افسران اور مذہبی حکام کو بالترتیب 3 لاکھ سے 5 لاکھ روپے کے برابر جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حجاب پر پابندی کا بل 19 جون کو تاجک پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے 18ویں اجلاس کے دوران منظور کیا گیا تھا۔ اپنے بل میں ایوان نے عید الفطر اور عید الاضحیٰ پر بچوں کی تقریبات پر پابندی کی بھی منظوری دی۔
حالیہ برسوں میں، تاجکستان کی حکومت مذہبیت کے عوامی نمائش کو روکنے کے لیے فعال اقدامات کر رہی ہے اور لوگوں کو تاجک قومی لباس پہننے کی ترغیب دے کر اپنی ثقافت کو فعال طور پر فروغ دے رہی ہے۔
تیرہ ہزار مردوں کی داڑھیاں منڈوادی گئیں
2016 میں، بی بی سی نے ایک رپورٹ میں الزام لگایا تھا کہ تاجک پولیس نے 13,000 مردوں کی داڑھیاں منڈوا دیں اور 160 حجاب فروخت کرنے والی دکانوں کو ایک “انٹی ریڈیکلائزیشن مہم” کے تحت بند کر دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہزاروں مردوں کو “اجنبی اور تاجک ثقافت سے متصادم طریقے اپنانے” کی وجہ سے قید کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ داڑھی رکھنا سنگین ترین جرائم میں شمار ہوتا ہے۔
مزید برآں صدر امام علی نے تاجکوں کو متنبہ بھی کیا تھا کہ “سوگ میں بھی خواتین کو سفید لباس پہننا چاہیے نہ کہ کالا،” کیونکہ سیاہ کو عام طور پر برقعے سے جوڑا جاتا ہے۔
اسکولوں میں حجاب پر پابندی
الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، جو 2005 میں شائع ہوئی تھی، وزیر تعلیم عبد الجبور رحمانوف نے اسکولوں میں حجاب پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیکولر اسکولوں میں حجاب پہننا ناقابل قبول ہے کیونکہ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے بچوں کے اپنی تعلیم کے خرچ پر مساجد میں زیادہ وقت گزارنے پر بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے رمضان 2005 کے دوران کہا تھا کہ ’’بہت سے لوگ شامیں مساجد میں گزارتے ہیں اور اپنا ہوم ورک نہیں کرتے۔