تصوف لذتِ نفس کو ترک کرکے حاصل کرو

   

پیرانِ پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے ایک مقالے میں سالکانِ راہِ طریقت کو نصیحت فرمائی ہے :
’’میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ سے ڈرو ، اُس کی فرمابرداری اختیار کرو ، ظاہر شریعت کی پابند کرو ، سینہ کو پاک اور چہرہ کو تروتازہ اور مسرور رکھو ، ضروری اُمور بجالاؤ اور ضرر رساں باتوں سے پرہیز کرو ، فقر و فاقہ اور تکالیف برداشت کرو ، بزرگوں کی عزت و احترام کا خیال رکھو ، بھائیوں کے ساتھ حُسن سلوک کرو ، اپنے سے کم عمر والوں کے ساتھ خیرخواہی اور نصیحت کے جذبے کے ساتھ پیش آؤ ، دنیاوی معاملات میں جھگڑا اور لالچ چھوڑدو ، قربانی اور ایثار کا جذبہ اپنالو ،کسی بھی چیز کی ذخیرہ اندوزی سے بچو ، جو لوگ گروہ اصفیاء سے دور ہیں ان کی صحبت اور مجالست سے پرہیز کرو، دین و دنیا کے اُمور میں تعاون کا جذبہ اختیار کرو، فقر کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے ہم مثل لوگوں کے سامنے دست سوال دراز نہ کرو ، تونگری کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے جیسوں سے بے نیاز ہوجاؤ ، تصوف صرف قیل و قال سے نہیں بلکہ بھوک سے اور لذاتِ نفس کو ترک کردینے سے حاصل ہوتا ہے ، فقیر کے ساتھ پہلے پہل علم سے نہیں بلکہ نرمی اور محبت سے پیش آنا چاہئے کیوں کہ علم اس کو وحشت اور نفرت دلائے گا اور نرمی اس کو محبت اور اُلفت دے گی ۔
اور یاد رکھو تصوف کی بنیاد آٹھ خصلتوں پر ہے :
۱۔
سخاوت
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح
۲۔
رضا
حضرت اسحق علیہ السلام کی طرح
۳۔
صبر
حضرت ایوب علیہ السلام کی طرح
۴۔
مناجات
حضرت زکریا علیہ السلام کی طرح
۵۔
سفر
حضرت یحییٰ علیہ السلام کی طرح
۶۔
لباسِ صوف
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح
۷۔
سیاحت
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح
۸۔
فقر
ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اﷲ ﷺکی طرح
ان پر سلام ہو …‘‘
پیرانِ پیر رحمۃ اللہ علیہ کی یہ ساری نصیحت سالکان راہِ طریقت کے لئے مشعل راہ ہے لیکن اس وقت میں خاص طورپر حضرت کے صرف ایک جملے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ پیران پیر فرماتے ہیں ۔
’’تصوف صرف قیل و قال سے نہیں بلکہ بھوک سے
اور لذتِ نفس کو ترک کردینے سے حاصل ہوتا ہے ‘‘۔
لیکن آج کل لوگوں کا وطیرہ یہ ہوگیا ہے کہ تصوف کو صرف ایک مباحثاتی موضوع (Debatable Topic) بناکر رکھ دیا ہے اور بس قیل و قال میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں، لیکن جب اس بحث و تکرار سے انھیں کچھ حاصل نہیں ہوتا تو شکوہ کرتے ہیں کہ ہم نے تصوف کو بہت کریدا ! مگر ہماری سمجھ میں نہیں آیا، یا پھر کبھی اہل طریقت کی کسی محفل میں شریک ہوگئے یا مہینہ پندرہ دن میں ایک آدھا بار ذکر کرلیا اور پھر یہی شکوہ کہ حاصل کچھ نہ ہوا ۔
سنو ! ایک مرتبہ ناچنے سے رقص نہیں آتا اور نہ ایک مرتبہ گانے سے موسیقی آتی ہے ، اس کے لئے بڑی ریاضت کرنی پڑتی ہے ، جب رقص و موسیقی جیسے فن باطل کا یہ حال ہے تو مہینہ میں ایک بار میرا مکتوب پڑھ لینے یا سُن لینے سے علم حق ، علم طریقت ، علم لدنی اور فن تصوف کیسے آجائے گا ۔ اس کیلئے بھی ریاضت و مجاہدے کی ضرورت ہے ۔
بزرگان دین کے مشن کو آپ نے کتنا آگے بڑھایا ، آج جائزہ لیجئے ، آج حضرت شاہ سید پیر حسینی رحمۃ الہ علیہ کا وابستگانِ سلسلہ کا سالانہ ’’یوم محاسبہ‘‘ بھی ہے ۔
کلمہ لاالہ الااﷲ کی چار منزلیں ہیں، آج دیہاتوں میں ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمان ایسے ہیں جنھیں کلمہ پڑھنا تک نہیں آتا اور شہروں میں رہنے والے نو سو ننانوے (۹۹۹) فی ہزار مسلمان ایسے ہیں جنھیں کلمہ پڑھنا تو آتا ہے لیکن منازلِ لاالہ سے ناواقف ہیں ۔ اس کے لئے آپ کو گھر گھر جاکر دستک دینی ہے ، سوتے ہوؤں کو جگانا ہوگا اور جاگتے ہوؤں کو جھنجوڑنا ہوگا ۔ برصغیر میں ہم ۹۰۰ برس تک سوتے رہے ، یہاں تک کہ زمانے نے کروٹ لے لی ۔ خدا کے بندو ! اب تو جاگو ! اﷲ کا پیغام گھر گھر پہنچاؤ تاکہ ہم سب کو دنیا میں عزت اور آخرت میں رسول اکرم ﷺ کی رفاقت نصیب ہو ۔ وما علینا الاالبلاغ ۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو صوفیہ کرام کے طریقہ کے مطابق ( جو مسنون طریقہ ہے ) اسلام کی تبلیغ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین