درلباس اہل دنیا کارعقبی می کنند
خرقۂ فقراست پنہاں در طریق نقشبند
جس طرح ائمہ و مجتھدین اور فقھاء و محدثین نے شریعت اسلامی کے اُصول کو قرآن و حدیث اور فتاوی صحابہ کی روشنی میں اپنے اجتھاد سے مرتب کیا چنانچہ انھوں نے تفسیر و حدیث کے اصول کو وضع کیااور اُصول فقہ کی داغ بیل ڈالی اِسی طرح صوفیاء کرام اور اہل اﷲ نے قرآن و حدیث اور عمل صحابہ کی روشنی میں تزکیہ نفس ، تہذیب اخلاق ، اصلاح باطن اور روحانی سیر و سلوک کے اُصول و ضوابط کو طویل ریاضت و مجاہدہ ، صحبت واجتہاد نیز اپنے مکاشافات و تجربات سے مرتب کیا ہے ۔
جس طرح بعض حضرات کو اُصول فقہ کی تدوین کی ضرورت و اہمیت سمجھ میں نہیں آتی اسی طرح اُن کو سلوک کے اُصول و ضوابط بھی سمجھ میں نہیں آتے ۔ اس لئے بھی کہ تصوف گرچہ قرآن و حدیث کانچوڑ اور اس کا لب لباب ہے تاہم اس کی تدوین میں صوفیاء کرام کے مکاشفات ، اجتہادات اور تجربات کا خاطر خواہ کردار شامل ہے، جس کے بعض گوشوں کی شریعت میں واضح تصریح نہ ملنے کے سبب ان کو ازروئے شرع سمجھنے اور قبول کرنے میں دشواری ہوتی ہے لیکن بہ نظر غایت دیکھا جائے تو سلوک و تصوف کے اصول و طُرُق درحقیقت شریعت کی تکمیل کے لئے ممد و معاون بلکہ نہایت موثر ثابت ہوئے ہیں جس طرح قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لئے علم النحو ، علم الصرف ، علم البلاغۃ کی تعلیم ضروری ہوتی ہے گرچہ یہ علوم فی نفسہ مقصود و مطلوب نہیں ہیں بلکہ ان کی حیثیت ایک آلہ اور ایک ذریعہ و سلسلہ کی ہے۔ اسی طرح تصوف سے سلوک کے بعض طریقے مقصود حقیقی تزکیہ نفس کے بعد عشق و محبت الٰہی اور اخلاص کی منزل میں قدم رکھنے کیلئے بطور ذریعہ و وسیلہ اختیار کئے گئے ہیں۔ مثال کے طورپر شریعت میں حرص ، حسد ، بغض حرام ، غرور ،غصہ ، بخالت، ریاکاری اور کینہ و دشمنی کی سخت مذمت آئی ہے لیکن ان مذموم عادتوں کو ختم کرنے کیلئے شریعت مطہرہ میں کوئی مخصوص طریقہ مقرر نہیں ہے ۔ اکابر صوفیہ نے سالک و طالب صادق سے ان بری عادتوں کو مکمل طورپر پاک و صاف کرنے کیلئے اپنے اجتہاد ، ذاتی تجارب ، اپنے مشائخ کے اقوال زریں کی روشنی میں مخصوص طریقے وضع کئے ہیں جوکہ شرعاً واجب العمل نہیں تاہم ان طریقوں کی تاثیر سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ (واضح رہے کہ سلوک کے اصول و ضوابط سے صوفیاء کرام کے تربیت ، تہذیب اور اصلاح کے مخصوص طریقے مراد ہیں۔ ان اکابر کے عرس کے موقعہ پر ادا کئے جانے والے مراسم یا بعض نادان عقیدتمندوں کے اظہارعقیدت کے طریقے قطعاً مراد نہیں )۔ صوفیائے کرام کے وجود کا ایک ظاہری کمال یہ ہے کہ کسی علاقے کے مسلمانوں پر کوئی بڑی آزمائش و مصیبت آتی ہے یا اسلامی سلطنت کو دشمن تباہ و برباد کردیتے ہیں ایسے کٹھن اور مشکل حالات میں ان بزرگوں کا وجود اہل اسلام کے لئے ایک عظیم نعمت ثابت ہوتا ہے اور یہ بزرگان دین اہل اسلام کو مرکز و محور یعنی خدائے ذوالجلال سے جوڑے ہوئے رکھتے ہیں ۔ چنانچہ تاریخ کے مختلف ادوار میں جب کبھی ایسے ناگہانی حالات رونما ہوئے اُمت پھر اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی اور اس میں بزرگانِ دین اور صوفیائے کرام کی خدمت کو فراموش کرنا گویا تاریخ کی ایک متفقہ حقیقت کا انکار کرنا ہے ۔
اسی طرح اہل دکن پر سقوط حیدرآباد اور پولیس ایکشن کے بعد جو ظلم و ستم اور مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے جس کی بناء اہل دکن کے قدم ڈگمگا گئے ، جانی و مالی نقصانات ہوئے ، جاگیریں ، جائیدادیں لُٹ گئیں ، عزت و ناموس داؤ پر آگئی ، حتی کہ بزرگوں سے عقیدت میں کمی آگئی ایسے دور میں ان مظلوم اُمت کو پھر سے جس کے وجود نے سہارا دیا اور قوم کو اﷲ تعالیٰ سے جوڑے رکھنے میں نمایاں کردار ادا کیا اس عظیم روحانی رہنما کا اسم گرامی حضرت ابوالحسنات سید عبداﷲ شاہ نقشبندی مجددی و قادری محدث دکن نوراللہ مرقدہ ہے ۔ آپ کے منجملہ کمالات میں سے ایک اہم کمال یہ ہے کہ آپ نے سلوک و تصوف کی تشریح و توضیح عام فہم انداز میں اس طرح کی ہے کہ ایک ذی فہم اور عام آدمی بھی سلوک و تصوف کے اصل مغز کو پہچان جائیگا اور اس کے ذہن و دماغ میں اُٹھنے والے شکوک و شبہات استفسارات اور اشکالات کا خودبخود ازالہ ہوجائیگا۔ اس باب میں آپ کی تصنیف ’’سلوک مجددیہ‘‘ دیگر کتب تصوف میں اپنی شناخت رکھتی ہے اور اس کو متعدد امتیازات حاصل ہیں۔ چنانچہ چند ایک اقتباسات درج ہیں: ’’تصوف نام ہے ترک اختیار کا کہ بندہ اپنی مرضی اور ارادہ کو رضائے حق میں فنا کردے ۔ صوفی وہ ہے جس کا باطن دنیاکی تمام کدورتوں سے پاک ہو۔
سلوک کے لغوی معنی راستہ چلنے کے اور بہ اصطلاح تصوف قرب خداوندی کے ذرائع حاصل کرنے اور آخرت کی طرف متوجہ ہونے کے ہیں۔ اور ان ذرائع سے حق سبحانہ و تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے والے کو سالک کہتے ہیں ۔ نیز ظاہر میں اعمال شرعیہ کے التزام کے ساتھ اخلاق باطنی کی اصلاح و تزکیہ کو سلوک کہتے ہیںجس سے نسبت باطنی کے حاصل ہونے کی استعداد و قابلیت پیدا ہوتی ہے ۔ سلوک اختیاری عمل ہے جس کا پہلا قدم زہد و تقویٰ ہے۔
امیرالمؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے تک پہنچنے کا ذریعہ عاجزی کے سوا کچھ نہ بنایا کیونکہ عاجزی تو ہر شخص بہ آسانی اختیار کرسکتا ہے بلکہ انسان تو سراپا عجز ہی عجز ہے ۔ اگر اﷲ تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ اس کے سوا کچھ اور ہوتا تو بڑی مشکل پڑجاتی اپنی عاجزی و انکساری کو سمجھ لینا ہی اﷲ تعالیٰ کا پالینا ہے ۔ استکبار (تکبر) کے ساتھ یہ راستہ ایک قدم بھی طئے نہیں ہوسکتا ، اس لئے تواضع سیکھو ، عجز و انکساری کا سبق پڑھو تاکہ منزل مقصود تک پہنچ سکو۔مختلف بزرگوں نے اپنے تجربات سے قرب خداوندی و معرفت الٰہی حاصل کرنے کے جو متعدد راستے متعین فرمائے ہیں انھیں طریق یا طریقت کہتے ہیں یوں تو اﷲ تعالیٰ تک پہنچنے کے ان گنت راستے بتلائے جاتے ہیں لیکن حق تبارک و تعالیٰ نے اپنی راہ معرفت دین اسلام کی پیروی انبیاء کرام و صدیقین و شہداء و صالحین کے اختیارکردہ راستہ کو مختص فرمایا ہے ۔ پس اولیائے کاملین و عارفین عظام نے معرفت الٰہی کے جو متعدد راستے اختیار فرمائے ہیں وہ بظاہر جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان سب کی منزل مقصود ایک ہی ہے ان میں سے سالک جس کسی راہ پر بھی چلے گا وہ ایک نہ ایک دن اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ ہی جائیگا ۔ مقصود سب کا تقرب و وصال الٰہی ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ جملہ طریقوں کے بنیادی اُصول ایک ہی ہیں البتہ فروعی اختلافات ضرور ہیں جن کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ اطباء کا طریقہ علاج اپنے اپنے تجربات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے کسی نہ کسی حد تک جداگانہ ضرور ہوا کرتا ہے حتی کہ تشخیص مرض اور تجویز ادویہ کے اعتبار سے بھی ایک ہی مرض میں ایک چیز ایک طبیب کے نزدیک مضر اور کسی کے نزدیک مفید ہوجاتی ہے ‘‘ ۔ ( سلوک مجددیہ ص ۱۔۲) ’’صوفیائے کرام کو کشف سے معلوم ہوا کہ بعض لطائف اس قدر زبردست ہیں کہ فرشتے بھی ان کے مقابلے سے عاجز ہیں۔ لطیفہ نفس جو سب سے کمتر ہے اس کی طاقت بھی اس قدر زبردست ہے کہ حیوانات و جنات میں سے کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا مگر انسان ہے کہ اس سے بے خبر ہے اور وہ اپنے ان لطائف کی طاقتوں کی پرورش نہیں کرتا اور یہ خیال کرتا ہے کہ اس کا بدن ذراسا ہے حالانکہ اس کے اندر سب سے بڑا جہاں چھپا ہوا ہے ۔ اسی سے اس کو اپنی حقیقت معلوم ہوسکتی ہے ۔ (ص : ۶)