جس کو دل میں بسایا نگر کی طرح
ساتھ رہ کر رہا بے خبر کی طرح
بی جے پی کے کچھ قائدین کی جانب سے وقفہ وقفہ سے انتہائی شر انگیزی والے اور سماج میں تفرقہ پیدا کرنے والے بیانات دئے جاتے ہیں۔ ان کے ذریعہ سماج میں نراج کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے اور پارٹی سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے ۔ ملک کی بے شمار ریاستوں میں اسی طرح کی حکمت عملی تیار کی گئی تھی اور اس پر عمل کرتے ہوئے ماحول کو حد درجہ پراگندہ کردیا گیا ہے ۔ چاہے اترپردیش ہو یاد ہلی ہو ‘ مدھیہ پردیش ہو یا کوئی اور ریاست ہو وقفہ وقفہ سے شر انگیزی اور زہر آلود بیانات عام ہوتے چلے گئے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بی جے پی کی اعلی قیادت یا حکومت کے ذمہ داران اس طرح کے شرپسند اور بیمار ذہنیت والے عناصر کے خلاف کسی طرح کی کارروائی نہیں کرتے بلکہ ان کی راست یا بالواسطہ طور پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور انہیں عہدوں سے نوازا جاتا ہے ۔ اگر کہیںشاذ و نادر کسی کی گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے تو عدالتوں سے ضمانتیں دلانے کی جدوجہد کی جاتی ہے اور ضمانتوں کے بعد ان کی گلپوشی اور شال پوشی کرتے ہوئے انہیں اعزاز دیا جاتا ہے اور ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ یہی حکمت عملی اب تلنگانہ میں بھی اختیار کی جانے لگی ہے ۔ ایک ملعون رکن اسمبلی راجہ سنگھ اس طرح کی بیان بازیوں میں سب سے آگے ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ یہ اپنی زہر آلود بکواس کے ذریعہ سماج میں بے چینی کی کیفیت پیدا کرتا ہے ۔ اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک میں داخلی صورتحال کو بہتر بنانے اور ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے ذمہ دار مملکتی وزیر داخلہ بنڈی سنجے خودا س طرح کی بیان بازی کرنے لگے ہیں اور انتہائی شرانگیز ریمارکس اور تبصرے کئے جا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا ہندوستان اور پاکستان سے تقابل کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کیا جا رہا ہے اور یہ سارا کچھ سیاسی اور انتخابی فائدہ حاصل کرنے کیا جا رہا ہے ۔ مرکزی وزارت میں شامل رہتے ہوئے اس طرح کی بیان بازیاں کرنا حد درجہ مذموم اور افسوسناک عمل ہے اور اس کا حکومت کے ذمہ داران کو نوٹ لینا چاہئے ۔
مسلم دشمنی اور مخالف مسلم و مخالف اسلام بیانات کیلئے مشہور ملعون رکن اسمبلی راجہ سنگھ اب ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان تجارتی رابطوں کو بھی ختم کرنے کی کوشش شروع کرچکا ہے ۔ اس نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے ہندو برادری سے خواہش کی ہے کہ وہ شیوراتری کے موقع پر مسلم تاجرین سے کوئی شئے نہ خریدیں۔ اس نے مسلمانوں کے تعلق سے نازیبا ریمارکس کرتے ہوئے ہندووں سے کہا کہ وہ شیوراتری کے موقع پر مسلم تاجرین سے ناریل ‘ پوجا کا سامان اور دوسری اشیاء وغیرہ نہ خریدیں ۔ یہ ایک طرح سے مسلمانوں کے معاشی مقاطعہ کی پہل ہے اور اس کو ابتداء ہی میں روکنا اور کچلنا چاہئے ۔ اس طرح کے بیانات ناقابل قبول ہیں اور ان کو ہرگز برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔ نفاذ قانون کی ایجنسیوں اور پولیس کو خاص طور پر حرکت میں آنا چاہئے ۔ سماج میں دوریاں اور خلیج بڑھانے کی اس طرح کی کوششوں کو آہنی پنجہ سے کچلا جانا چاہئے ۔ راجہ سنگھ کے خلاف مقدمات درج کرتے ہوئے اسے جیل بھیجا جانا چاہئے اور مقدمات کی موثر پیروی کرتے ہوئے عدالتوں سے سزائیں دلائی جانی چاہئیں تاکہ سماج میں نفرت اور دوریاں پیدا کرنے کی اس کی مذموم کوششوں کو ناکام بنایا جاسکے ۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر ہونے سے بچایا جاسکے اور کسی کو بھی نفرت پھیلاتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا موقع نہ مل پائے ۔ اس طرح کی بیان بازیوں پر روک لگانا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس میں تاخیر نہیں کی جانی چاہئے ۔
سارے ملک ہندوستان میں اور خاص طور پر تلنگانہ میں ہندو ۔ مسلم تعلقات بہتر ہیں ۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ سماجی اور تجارتی تعلقات ہیں۔ ان میں دوریاں پیدا کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ جس طرح ہندو برادری اپنے تہواروں کے موقع پر مسلمانوں سے ساز و سامان خریدتے ہیں اسی طرح ماہ رمضان المبارک میں مسلمان بھی ہندو تاجروں سے بھاری خریداری کرتے ہیں۔ ان روایات کو ختم کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ پولیس اور دوسری متعلقہ ایجنسیوں کو فوری حرکت میں آتے ہوئے اس کا نوٹ لینا اور کارروائی کرنا چاہئے ۔