تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں …

   

محمدمبشر الدین خرم
ہندستانی مسلمان اب اس فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہوچکے ہیں جہاں انہیں اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ملک میں اپنے مستقبل کو بہتر بنانا چاہتے ہیں یا مزید تباہ کن حالات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں! ہندستانی سیاست میں نمایاں نظر آنے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے اب اس بات کا اندازہ ہونے لگا ہے کہ ہندستان میں مسلمانوں کی اہمیت کو ختم کرنے کی منظم سازشوں پر عمل آوری کی جانے لگی ہے۔ 2014کے بعد ملک کے حالات میں ریکارڈ کی جانے والی تبدیلیوں پر سب کی نظریں ہیں اور 2014 کے عام انتخابات کے جو نتائج آئے ہیں اس کے لئے مختلف گوشوں کی جانب سے 2002 گجرات فسادات کو ذمہ دارقرار دیا جانے لگا ہے لیکن جن سنگھ نے ملک میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے بیج تو30جنوری 1948کو گاندھی جی کے قتل کے ساتھ ہی بو دیا تھا لیکن اس کے بعد اس کی مختلف طریقوں سے آبیاری کی جاتی رہی اور 6ڈسمبر 1992کو اس بیج کا پودا رونما ہوگیا جس کی بہتر انداز میں اگلے 10 سال تک یعنی 2002 تک حفاظت کی گئی 2002کے گجرات فسادات میں جب فرقہ وارانہ نفرت کا یہ درخت تناور ہوگیا تو اس کے بعد اس کے پھل توڑنے کی کوششوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ 10سال فرقہ واریت کے پھلوں کی حفاظت کی گئی اور 12 سال بعد یعنی 2014 میں اس کے پھل توڑے جانے لگے۔2014کے بعد محبت و الفت کا باغ تصور کیا جانے والا ہندستان جہاں انسان اور انسانیت کی اہمیت ہوا کرتی تھی وہ ماند پڑتی چلی گئی اور دنیا کو امن و آشتی کا درس دینے والے ملک کو نفرت کے باغ میں تبدیل کردیا گیا۔نفرتوں کے اس باغ کی باغبانی کی ذمہ داری خواد مقتدر اعلیٰ طبقہ کی جانب سے کی جا رہی ہے چوکیدار کبھی قبرستان اور شمشان سے خوف پیدا کرتا ہے تو کبھی رمضان اور دیوالی کے نام پر نفرت کو ہوا دیتا ہے۔ چوکیدارکبھی لباس سے جان لیتا ہے کہ کو ن ملک دشمن ہے تو کبھی غذاء سے پہچان لیتا ہے کہ کو ن ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ 2014کے بعد ہندستان میں ہندستانیوں کی شناخت ان کی ’’عید کی رام رام‘‘ سے نہیں بلکہ غذاء‘ لباس‘ سیاسی تعلق اور جانوروںکے تحفظ کے نام پر پیدا کی جانے والی نفرت سے ہونے لگی ہے۔2014 کے بعد نفرت کے تناور درخت پر پکنے والے پھلوں میں رام مندر‘ آرٹیکل 370‘طلاق ثلاثہ‘ شہریت ترمیمی بل ‘ قومی رجسٹر برائے شہریان شامل ہیں اور اب یکساں سیول کوڈکے پھل کو پکانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ آسام اور منی پور سرحد پر جاری تنازعہ کے دوران اس پھل کو بھی توڑ ا جاسکتا ہے کیونکہ تنازعہ کے دوران اگر کوئی متنازعہ فیصلہ کر بھی لیا جاتا ہے تو عام شہریوں کی اس جانب توجہ نہیں جاتی اور قانون سازی کا عمل مکمل ہو جاتا ہے اسی لئے ایسا لگتا ہے کہ یہ قانون سازی اب کرلی جائے گی کیونکہ یکساں سیول کوڈکے نفاذ کی صورت میں مسلمانوں کی مخالفت سے زیادہ حکومت شمال۔مشرقی ہند کے شہریوں میں پیدا ہونے والی بغاوت کی صورتحال سے خوفزدہ ہے۔
برسراقتدار مودی حکومت کو اگر کوئی ناکام حکومت یا نریندر مودی کو ناکام وزیر اعظم تصور کرتا ہے تو اس کی خام خیالی ہے کیونکہ 7 سالہ دور اقتدار کے دوران نریندر مودی حکومت نے اپنے نظریہ اور نظریہ ساز تنظیم کے ہر اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے جس مقصد کے تحت طویل صبر آزما جدوجہداور خون کو پانی کی طرح بہانے کے علاوہ تاریخ کو مٹانے جیسی انتہائی مشکل کوششوں کے بعد حکومت حاصل کی گئی ہے۔ سنگھی فکر کو 100 سال مکمل ہونے جا رہے ہیںاور ان 100 برسوں کے دوران سنگھ اور سنگھ کے ساتھ جڑے لوگوں نے کیا حاصل کیا ہے اس بات کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ سنگھ نے ہندستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا جو خواب دیکھا ہے وہ شائد آئندہ سال صدی تقاریب تک موجودہ حکومت پورا کردے گی اور سنگھ کو یہ تحفہ صدی تقاریب کے اختتام تک دے دیا جائے گا ۔دستور ہند میں ترمیم کے لئے درکار تعداد حاصل نہ ہونے کے باوجود حکمراں جماعت نے گذشتہ 7 برسوں کے دوران ایسے قوانین کو منظور کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے جو کہ ہندستانی اقلیتی آبادیوں کے حقوق کو پامال کرتے ہیں ۔ان آزمائشی کوششوں میں کامیابی کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے حوصلے بلند ہونے لگے ہیں اور اپوزیشن جماعتیں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر نریند مودی کو قد آور قائد بنانے کی کوشش کررہی ہیں۔ گذشتہ دنوں مغربی بنگال کے نتائج کے بعد ممتا بنرجی سے ہندستان کے سیکولر عوام کو توقعات وابستہ ہونے لگی تھیں لیکن ممتا بنرجی نے اپنے حالیہ دورۂ دہلی کے دوران ایک بیان میں کہا کہ ’’آئندہ انتخابات مودی بمقابلہ ہندستان ہوں گے‘‘ بظاہر تو یہ بیان موودی کیلئے چیالنج ہے لیکن بالواسطہ طور پر مودی کو اس قدر قدآور بناتا ہے کہ وہ ہندستان کا مقابلہ کرنے کے اہل ہیں۔آج بھی حقیقی ہندستانیوں کی نظر میں مودی ہی نہیں بلکہ کوئی سیاسی قائد خواہ وہ زندہ ہو یا اس دنیا میں نہ ہو ہندستان کے برابر نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کسی سیاسی قائد کا نظریہ ہندستان کے نظریہ کے مد مقابل کھڑا ہوسکتا کیونکہ کمیونزم کا نظریہ جو چین پر اب بھی حکمرانی کر رہا ہے اور لادینیت کے ساتھ کھڑا ہے وہ ہندستان کے نظریہ کے آگے بے بس ہے ۔ جس ملک میں لادینیت کا نظریہ بے بس ہوچکا ہو اس ملک میں فرقہ واریت پر مبنی نظریہ کے لئے کوئی جگہ طویل مدت تک نہیں رہ سکتی۔
نریندر مودی نے اپنے دور اقتدار میں کرنسی تنسیخ ‘ اچانک پاکستان پہنچنے کے علاوہ اپنے نام کے ڈیزائن کے ساتھ تیار کردہ سوٹ پہننے کے علاوہ امریکی انتخابی مہم میں حصہ لینے والے ہندستانی وزیر اعظم جیسے کارہائے نامہ انجام دیئے ہیں جس کے لئے انہیں تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی یا کبھی معاف نہیں کرے گی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان پر اپنے کام اور اپنے نام پر رہتی دنیا تک باقی رکھنے کی خبط سوار ہے ۔ دہلی میں تعمیر کئے جا رہے سنٹرل ویسٹا پراجکٹ نئی پارلیمنٹ کی عمارت کی تکمیل کو وہ اپنے دور میں مکمل کرنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے ہیں بلکہ اسی رفتار کے ساتھ یہ پارلیمنٹ کی عمارت تعمیر بھی کی جا رہی ہے۔ سینٹرل ویسٹا کی تعمیر کے بعد برطانوی حکمرانوں کی جانب سے تعمیر کی گئی موجودہ پارلیمنٹ کی عمارت میں ہندستانی ارکان پارلیمان نہیں بیٹھا کریں گے بلکہ وہ ہندستانی تعمیر کردہ پارلیمنٹ میں عوامی مسائل کے حل اور قانون سازی کا فریضہ انجام دیں گے ۔ اگر آپ کو یاد ہے تو ہندستان میں سنگھ نے ابتداء سے ایک مہم چلا رکھی ہے جس کے تحت’’سودیشی ‘‘ کا نعرہ دیا جاتا ہے اور ’ودیشی ‘ کے بائیکاٹ کی بات کی جاتی ہے اسی طرح ہندستان میں ’’میک ان انڈیا ‘‘ اسکیم چلائی جا رہی ہے اور پارلیمنٹ بھی میڈبائی انڈین گورنمنٹ‘‘ Built by indian Government ہوگی۔ اس عمارت کی تعمیر کے پس پردہ کئی راز ہیں جنہیں اٹھایاجاتا ضروری ہے کیونکہ ان رازوں میں ہی ہندستانی مسلمانوں کا سیاسی مستقبل پنہاء ہے ۔وقت سے پہلے نہ جاگنے کی صورت میں سنگین صورتحال کا سامناکرنا پڑسکتا ہے یا نہ صرف سیاسی طور پر غیر اہم بلکہ اپنے وجود پر کف افسوس ملنا پڑسکتا ہے۔ 7 برسوںکے دوران یہ کہا جاتا رہا ہے کہ مسلمانوں سے حق رائے دہی چھینا جاسکتا ہے لیکن موجودہ حکومت ایسا کچھ نہیں کرے گی بلکہ مسلمانوں کے حق رائے دہی کو برقرار رکھتے ہوئے اسے غیر اہم کرنے کی زبردست منصوبہ بندی کرچکی ہے لیکن اس پر عمل آوری کے لئے حکومت دستور میں ایک او رترمیم کرنی ہوگی اور دستوری ترمیم موجود ہ حکومت کے لئے کوئی اہم بات نہیں ہے اور ہندوتوا کے مفاد کو ملک کے مفاد کا نام دیتے ہوئے اس ترمیم کو انجام دینے کی صلاحیت ارباب اقتدار میں خوب ہے ۔ حکومت ہند کی جانب سے ملک بھر کی پارلیمانی نشستوں کو دوگنا کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور اگر ایسا کرنے سے قبل عوامی رائے حاصل نہیں کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی بھی ریاستی اسمبلیوں میںاینگلو ۔انڈین کے نمائندہ کی حد تک محدود ہوجائے گی اور آئندہ 20 برس تک بھی ملک کے جمہوری اقدار کو بحال کرنے میں کوئی پیشرفت کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔کیونکہ اگر پارلیمنٹ میں لوک سبھا کی نشستوں کو 1000کردیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں بی جے پی کو زبردست فائدہ حاصل ہوگا۔ بی جے پی کے پارلیمنٹ میں فی الحال 301 ارکان موجود ہیں اور اگر نشستوں کی تعداد 1000کردی جاتی تو ایسی صورت میں بی جے پی کے 50 ارکان کو شکست کے بعد بھی 500 سے زائد ارکان پارلیمان کا انتخاب کروانے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔بی جے پی چھوٹے حلقہ جات پارلیمان کے ذریعہ بہتر حکمرانی کا خواب دکھاتے ہوئے اسے قومیت کے مسئلہ کے طور پر پیش کرے گی اور یہ کہا جائے گا کہ اگر رائے دہندوں کی تعداد اور پارلیمنٹ حلقہ کے حدود کم ہوں تو حکمرانی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کا کام حلقہ کی ترقی سے زیادہ قانون سازی ہوتا ہے۔
پارلیمنٹ میں ارکان کی موجودہ تعداد 543 کو 1971 میں منظور کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے اب تک لوک سبھا کی نشستوں میں اضافہ کا فیصلہ نہیں کیا گیا لیکن 2001 کی مردم شماری اور آبادی کی بنیاد پر نئی حد بندی کی گئی اور ساتھ ہی حکومت نے حلقہ جات پارلیمنٹ کی تعداد میں اضافہ کو 2026 تک انجام نہ دینے کے لئے دستور کی دفعہ 84 میں ترمیم کو منظوری دی تھی لیکن اب جبکہ 2024میں انتخابات منعقد ہونے ہیں اور دستوری ترمیم کے مطابق 2026 سے قبل پارلیمنٹ کی نشستوں میں اضافہ کیاجانا ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت ہند کی جانب سے سینٹرل ویسٹا کی تعمیر کے ساتھ سنگھی ایجنڈہ کو فروغ دینے اور ملک میں مسلم بلکہ ان طبقات کی نمائندگی کو کم کرنے کے اقدامات بھی ممکن ہے جو فرقہ پرستی کی نفی کرتے ہوئے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔سنگھی زہر کے سرائیت کرجانے کا یہ اثر دیکھا جانے لگا ہے کہ ہندستان کی ہر وہ سیاسی جماعت جو کہ اب تک سیکولر تصور کی جاتی تھی وہ مسلمانوں سے دوری بنائے رکھتے ہوئے ملک کی 86فیصد آبادی کو خوش کرتے ہوئے ان میں اپناحصہ تلاش کرنے لگی ہیں اور مسلمانوں کی جانب سے صورتحال کو باریکی سے سمجھنے کے بجائے جذباتیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نفرت کے درخت کی آبیاری کی جانے لگی ہے ۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہتی ہے تو ملک میں مسلمانوں کا کوئی مستقبل باقی نہیں رہے گا اور نہ ہی ان کے ووٹ کی کوئی قدر و قیمت رہے گی بلکہ ایک سیاسی قائد ایک واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انتخابات سے قبل تمام طبقات کے سرکردہ قائدین سے ان کے مطالبات سے آگہی حاصل کی جا رہی تھی اور انہیں تیقن دیا جا رہاتھااور جب مسلم قائدین کا تذکرہ کیا آیاتو کہا گیا کہ انہیں ایک گیہوں کی بوری پہنچا دی جائے۔