حضرت امیر خسرؔو کی شاعری، اُن کا فلسفہ اور پیغام

   

ڈاکٹر امیر علی

حضرت امیر خسرؔو کا شمار فارسی اور اُردو کے عظیم المرتبت ادیبوں اور شاعروں میں ہوتا ہے۔ اُنھوں نے بیان کے ایسے دریا بہائے جس سے سارا ہندوستان آج بھی سیراب ہورہا ہے۔ وہ بیک وقت عالم باعمل، صوفی باکمال شاعر، مفکر، فلسفی اور ادیب کامل تھے۔ اُردو زبان و ادب کے پہلے شاعر بھی تسلیم کئے جاتے ہیں۔ صوفی منش اور بوریا نشین شاعر نے اپنے فکر و فن اور خُداداد صلاحیتوں سے اپنے عہد کو بڑا متاثر کیا اور آج بھی لوگ اُن کی شخصیت اور شاعری کے بڑے مداح ہیں۔ آپ کی شاعری وقت گزاری یا دل بہلانے کا ذریعہ نہیں ہے۔ وہ جو کچھ بھی ارشاد فرماتے تھے کیف و سرمتی میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ آپ کی شاعری عشق حقیقی کی آئینہ دار ہے اور آپ کا کلام تصوف میں ڈوبا ہوا ہے جو بندے کو مولا سے ملانے کا کارگر وسیلہ ہے۔ اُنھوں نے اپنے وقت کی رائج الوقت 5 زبانوں میں مہارت حاصل کی۔ اُردو اور ہندی کے علاوہ اُنھوں نے فارسی میں کم و بیش پانچ لاکھ اشعار تخلیق کئے ہیں۔ غزل آپ کی محبوب صنف سخن ہے مگر انھوں نے دوسری اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے اور کئی اہم تصانیف اپنی یادگار چھوڑی ہے جو فارسی، اُردو اور ہندی کا قدیم انمول ادبی خزانہ ہے۔ اُنھوںنے اپنے کلام سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہِ راست پر لگانے کی کامیاب کوشش کی جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے۔ اُنھوں نے اپنی تعلیمات سے آدمیت کو انسانیت کا درس دیا ہے۔ چودھویں صدی عیسوی کے اہم صوفیائے کرام میں حضرت امیر خسرؔو کا نام بہت اہم ہے۔ وہ ترکی النسل تھے ، آپ کے والد امیر سیف الدین محمود بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ اُن کا شمار ہزارہ بلخ کے امراء میں ہوتا تھا۔ چینگیز خان کے حملوں سے تنگ آکر ہندوستان آئے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے اور ہندوستان کو اپنا مسکن بنالیا۔ یہاں اُن کی اولاد خوب پھلی پھولی اور دنیائے ادب میں بڑا نام کمایا۔ دہلی کے ایک مشہور نواب امیر عماد الملک ( جنہوں نے 113 سال کی عمر میں وفات پائی ) کی بیٹی سے شادی کی جن کے تین لڑکے ہوئے جن میں سب سے چھوٹے حضرت امیر خسرو تھے۔ دیباچہ غزۃ الکمال کے مطابق حضرت امیر خسرؔو کی ولادت باسعادت یکم ؍ محرم 651ھ مطابق 3 مارچ 1253ء آگرہ کے قصبہ پٹیالی میں ہوئی۔
حضرت امیر خسرؔو کم سنی میں ہی والد کی شفقت اور سرپرستی سے محروم ہوگئے۔ آپ کی تعلیم و تربیت و نگہداشت آپ کی والدہ دولت ناز اور شفیق نانا کی زیر نگرانی ہوتی رہی۔ والدہ اور ناز بردار نانا کی بدولت حضرت امیر خسرؔو تعلیم و تربیت، اخلاق و حُسنہ، زہد و تقویٰ اور دوسرے علوم میں ادیب کامل بن گئے اور بچپن سے ہی شعر کہنے لگے اور نوجوانی میں ہی صاحبِ دیوان شاعر بن گئے۔ اور دنیائے ادب میں بڑا نام کمایا۔ اور حضرت شیخ سعدؔی شیرازی ؒ کی روایات کو آگے بڑھایا۔
حضرت امیر خسرؔو کا شمار فارسی کے مشہور اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اُنھوں نے کئی نادر غزلیں کہی ہیں۔ جن میں فصاحت و بلاغت، حکیمانہ اور فلسفیانہ افکار موجود ہیں۔ آپ کی شاعری میں ’’ وحدت الوجود ‘‘ کی گہری چھاپ بھی نمایاں ہے۔ آپ کی چند مشہور فارسی غزلیں اس طرح ہیں جس کا منظوم اُردو ترجمہ بھی درج ہے جس کو حکیم شمس الاسلام صاحب نے بڑے ہی مؤثر انداز میں کیا ہے:
( فارسی غزل )
(۱)
(اُردو ترجمہ )
نمی دانم چہ منزل بُود شب جائیکہ من بُودم
میں خود گُم کردہ منزل تھا جہاں کہ رات میں خود تھا
بہر سُو رقص بسمل بُود شب جائیکہ من بودم
بہر سُو رقص بسمل تھا جہاں کہ رات میں خود تھا
پری پیکر نگار سے سرود سے لالہ رُخسار سے
پری پیکر نگار سے سرود سے لالہ رُخسار سے
سراپا آفتِ دل بُود شب جائیکہ من بودم
سراپا آفتِ دل تھا جہاں کہ رات میں خود تھا
رقیباں گوش برآواز اور در ناز من ترساں
تھے دُشمن گوش برآواز ان کو ناز میں ترساں
سخن گُفتن چہ مشکل بُود شب جائیکہ من بودم
وہاں کچھ کہنا مشکل تھا جہاں کہ رات میں خود تھا
خُدا خود میر مجلس بُود اندر لامکاں خسرؔو
خُدا خود میر مجلس تھا میاں لامکاں خسرؔو
محمدؐ شمعِ محفل بُود شب جائیکہ من بودم
محمدؐ شمعِ محفل تھے جہاں کہ رات میں خود تھا
(۲)
دیدم بلای ناگہانِ عاشق شُدم ، دیوانہ ہم
جہاں سے اس آفت کا ہوں عاشق بھی دیوانہ بھی
جانم ہجان آمد ہمی از خوخویش و ازبیگانہ ہم
ساری دُنیا بہری ہوگئی، اپنا بھی بیگانہ بھی
دیوانہ شُد زد عشق ہم، ناگہ بر آوردآتشی
دیوانہ ہے عاشق بھی ہے یہ تو آگ لگادے گا
شُد رفت شہری سوختہ خاشاک ایں ویرانہ ہم
سب کچھ اس میں جل جائے گا بستی بھی ویرانہ بھی
شمع اندر خوبانِ کاہل دل دانزد سوز داغِ نشاں
شمع ہے خوبانِ جہاں یہ جلنے والے جانتے ہیں
این چاشنیِ ہااندکی دارد خبر وپروانہ ہم
اس سوزش کی لذت سے کچھ واقف ہے پروانہ بھی
چوں خواب ناید ہر شبی، خسرؔو فتادہ بردرت
جب بھی رات کو نیند نہ آئی خسرؔو تیرے درپر تھا
درماہ و پروین بنگرد، غم گوید و افسانہ ہم
پلکو پر تھے چاند ستارے کہتا تھا افسانہ بھی
(۳)
عُمر بہایانِ رسید ہوس رویِ دوست
عُمر ساری کٹ گئی ہے ائے ہوس روئے دوست
برگِ صبوری کو است بے رُخِ نیکویِ دوست
کس کو ہے صبر وشکیب ِ جلوہ ہائے خوئے دوست
گرہمہ عالم شوند منکر ماگو شوید
گرہوا سارا جہاں دُشمن تو ہوجایا کرے
دور نخواہیم شُد ماز سر کویِ دوست
درد نہ ہو پاؤں گاتجھ سے مگر ائے کوئے دوست
قبلۂ اسلامیانِ کعبہ بود در جہاں
قبلۂ مسلم تھا کعبہ اس زمانے میں مگر
قبلۂ عُشاق نیست جز خمِ ابرویِ دوست
قبلۂ عُشاق ہے کب جز خمِ ابروئے دوست
ائے نفسِ صبحدم ، گرہنی آنجا قدم
ائے نفسِ صبحِ دم گر یہاں رکھے قدم
خستہ و لم در شکن مویِ دوست
خستہ دل کو باندھ ڈالے درشکن موئے دوست
(۴)
چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملائیکے
نیناں ملائیکے نیناں لڑائیکے ۔ اپنی سی کرلی رے موسے نیناں ملائیکے
ارے متوالی کرلی رے موسے نیناں ملائیکے
چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملائیکے
خسرؔو نظام کے بَل بَل جاؤں
موہے سُہاگن کی رے موسے نیناں ملائیکے
چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملائیکے
اُردو زبان و ادب اور شاعری کا فروغ راتوں رات عمل میں نہیں آیا بلکہ اُس کو پروان چڑھانے اور فروغ دینے میں صوفیائے کرام ، علمائے کرام، فنکاروں ، شعراء اور ادیبوں نے اپنے فکر و فن اور اپنی خدمات سے علم و ادب اور شاعری کے باغ کو اپنے خونِ جگر سے سینچا جس کے اُجلے نقوش آج بھی موجود ہیں۔ حضرت امیر خسرؔو اس باغ کے باغبان ہیں۔ حضرت امیر خسرؔو کو اپنے پیر و مُرشد حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ( محبوب الٰہی ؒ) سے گہری عقیدت تھی اور شیخ نے اُنھیں ترتیب سے نوازا تھا اور آپ کو تصوف کے رنگ میں اس طرح رنگ دیا تھا کہ اُن کی شاعری اور اُن کا ہر فعل اپنے محبوب پیر و مرشد کی رضا جوئی کے لئے ہوتا تھا۔ حضرت نظا م الدین اولیاء ؒ ، عالم باعمل ، صوفی باکمال اور روحانی پیشوا ہیں۔ آپ کی روحانی تعلیمات بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ ِ راست پر لگانے اور بند ے کو مولا سے ملانے کا کارگر وسیلہ ہیں۔
حضرت امیر خسرؔو کو خُدا کی وحدانیت پر پورا بھروسہ تھا۔ آپ کے کلام میں جگہ جگہ اس بات کا ثبوت ملتا ہے۔ حضرت امیر خسرؔو ازل سے ہی عشق کا جذبہ اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوئے تھے۔وہ سانس بھی لیتے تو اُن کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ عشق کی چھُری اُن کے قلب و جگر میں پیوست ہورہی ہے۔ آپ کے کلام میں فصاحت و بلاغت ، سادگی، تسلیم و رضا ادب و احترام ہے۔ وہ کبھی بے ادب ہوتے ہیں اور نہ گُستاخ ۔ نادر تشبیہات ، والہانہ جذبات ، لطافت ِ زبان و بیان اور شیریں کلام ، فلسفیانہ ، حکیمانہ اور صوفیانہ افکار حضرت امیر خسرؔو کی شاعری کے مخصوص رنگ ہیں۔ اُنھوں نے اپنی شاعری سے اپنے ہم وطنوں کو حُب الوطنی کا درس دیا ہے ۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے اپنی شاعری سے آدمیت کو انسانیت کا درس دیا اور اُن کی تعلیمات اور پیغام میں آپسی بھائی چارہ ، زہد و تقویٰ اور خدمت خلق کا درس بھی موجود ہے۔
حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کی طرح حضرت امیر خسرؔو عبادت و ریاضت اور یادِ الٰہی میں اس طرح کھوجاتے کہ آپ پر فنا ء و بقاء کی سی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ ’’ نمی دانم چہ منزل بُود شب جائیکہ من بودم ، بہر سورقص بسمل بودشب جائیکہ من بودم ‘‘ ۔ والا معاملہ ہوتا تھا۔ حضرت امیر خسرؔو کو ادب اور شاعری کے علاوہ فن موسیقی سے بھی گہرا لگاؤ تھا۔ ہندوستانی اور ایرانی موسیقی میں آپ کی مہارت خُداداد تھی۔ سِتار آپ کی ایجاد ہے اور قوالی بھی آپ کی دین ہے۔ اہلِ ایران بھی اُن کا لوہامانتے ہیں ۔ وہ فارسی، اُردو اور رائج الوقت زبانوں میں دستگاہ رکھتے تھے ۔ شعری مجموعوں کے علاوہ نثر میں بھی آپ نے کئی اہم تصانیف اپنی یادگار چھوڑی ہیں، جو زبان او ادب اور شاعری کا قیمتی سرمایہ ہے۔
حضرت امیر خسرؔو نے کئی حکیمانہ اور فلسفیانہ اقوال بھی کہے ہیں ۔ آپ کا ایک مشہور قول اس طرح ہے : امیر خسرؔو فرماتے ہیں: ’’ پُھول سو پردوں میں بھی پوشیدہ ہو تو اپنی خوشبو کی وجہ سے پوشیدہ نہیں رہتا۔‘‘ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ اجمیری کا مشہور قول اخبارالاخبار کے مطابق اس طرح ہے کہ ’’ خُدا اُن کو دوست رکھتا ہے جن میں سخاوت دریا کی سی ، شفقت آفتاب کی سی اور تواضع زمین کی سی ہو ۔‘‘ اور اپنے جانشینوں اور مُریدوں کو اس طرح نصیحت فرماتے تھے کہ ’’ جو تمہارے ساتھ کوئی دشمنی کرے تم اُس سے دوستی کا برتاؤ کرو اور کسی کو تکلیف نہ دینا ۔‘‘ حضرت امیر خسرؔو کی شخصیت اور شاعری مثالی ہے۔ حضرت امیر خسرؔو ایک شخص یا شاعر کا نام نہیں ہے وہ اپنے آپ میں ایک ادارہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
حضرت امیر خسرؔو نے طویل عمر پائی اور اپنی ساری زندگی زہد و تقویٰ ، خدمت خلق، خود داری اور اُردو زبان و ادب ، تہذیب، اعلیٰ علمی روایات اور شاعری کو پروان چڑھانے میں صرف کردی ہے۔ آپ کے شاگردوں ، دوستوں اور اُن کے چاہنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے جس میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ حضرت امیر خسرؔو ’’ سلطان اور سیاست ‘‘ سے بھی وابستہ رہے اور کئی عوامی خدمات بھی انجام دیں۔ آپ نے گیارہ بادشاہوں کا دورِ حکمرانی دیکھا اور سات بادشاہوں کی ملازمت میں رہے۔ سبھی حکمران آپ کی شخصیت اور شاعری کے بڑے مداح تھے۔ حضرت امیر خسرؔو نے ادب اور شاعری کے علاوہ سماجی زندگی میں مشترکہ روایات اور جذباتی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ 13اپریل 1325ء کو حضرت نظام الدین اولیاء ؒ نے اپنے محبوب مرید اور شاگردِ رشید کو طلب فرمایا اور آپؒ کی موجودگی میں حضرت نصیر الدینؒ چراغ دہلوی کو خلافت کا خرقہ اور سلسلۂ وار اپنے چاروں خواجگان کے اہم تبرکات حوالے کرکے اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ آپؒ کے وصال کی خبر سے ساری دہلی میں کہرام مچ گیا۔ حضرت امیر خسرؔو اپنے شیخ کی وفات پر بے چین و بے قرار ہوگئے اور آپؒ کی جُدائی پر آنسو بہائے اور گُل ہائے عقیدت پیش کیا اور اسی دیوانگی کے عالم میں چھ ماہ تک شیخ کے مزار مُبارک پر جاروب کشی کرتے رہے اور آپ کی زبان پر یہ شعر جاری تھا:
گوری سوئے سیج پرمُکھ پر ڈارے کیس
چل خسرؔو گھر اپنے این بھئی چوندیس
سیراولیاء کے مطابق حضرت امیر خسرؔو نے اس و حُرماں کی کیفیت میں یعنی 17 شوال 725ھ مطابق 25ڈسمبر 1325 ء کو غُربت میں ’’ مینائے امیر ‘‘ توڑ ڈالی اور اپنی جان ، جانِ آفرین کے سپرد کردی اور اپنے مالک ِ حقیقی سے جاملے۔ آپ کے جسدِ خاکی کو ہزاروں سوگواروں کے بیچ اپنے پیر و مُرشد کے بائیں جانب پرانی دہلی میں سپرد لحد کردیا گیا۔ ہندوستانی تہذیب و ثقافت، ادب اور شاعری کی یہ شمع ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا