ابوزہیر سیدزبیرھاشمی نظامی
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادمبارک ہے کہ ’’دو قطرے اللہ تعالی کو بڑے محبوب و پسندیدہ ہیں، ایک تو آنسوؤں کے وہ قطرے جو اللہ کی یاد اور اس کے خوف سے ایک بندہ مؤمن کی آنکھ سے نکلے ہوں اور دوسرے خون کے وہ قطرے جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے، اللہ کی راہ میں جان دے کر بہائے گئے ہوں‘‘۔
توبہ عبادت کبریٰ ہے، جو ایمان والوں کی مستقل صفت ہے، جس کے ذریعہ نفس کی پاکی، قلب کی نورانیت اور روح کی بالیدگی نصیب ہوتی ہے اور تمام عبادتوں کے لطف کا دار و مدار توبہ پر ہی منحصر ہے۔ توبہ کے لغوی معنی پلٹنے اور رجوع کرنے کے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں سرکشی سے رُک کر بندگی کی طرف پلٹنا، اطاعت الہی کو اپنا شعار بنانا اور غفلت کے پردہ کو چاک کرکے بارگاہ بے نیاز تک رسائی حاصل کرنا ہے اور توبہ کی نسبت حق تعالی کی طرف ہو تو اس کے معنی شرمسار اور گنہگار بندوں کی طرف رحمت کی نظر سے کرم کرنا ہے۔
حضرت سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ ہمیں دو امانتیں دی گئی، ایک امانت تو حضور ﷺکی ذات گرامی ہے اور دوسری امانت جو تاقیام قیامت ہمارے ساتھ رہے گی وہ ہے، توبہ۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ ’’گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے، جیسے اس نے گناہ ہی نہ کیا ہو‘‘۔ ایک اور جگہ ہے کہ زمین و آسمان بنائے جانے کے وقت سے ہی سمت مغرب میں ایک دروازہ نصب کیا گیا ہے، جس کی چوڑائی ستر(۷۰) برس کے راستے کی ہے اور وہ اس وقت تک کھلا رہے گا، جب تک کہ آفتاب مغرب سے طلوع نہ ہوجائے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں توبہ ایسا باب رحمت ہے، جس کے ذریعہ تاریک دل منور ہوتا ہے، مردہ ضمیر زندہ ہوتاہے۔ دراصل حق تعالی کو بندہ کی توبہ سے اس قدر خوشی ہوتی ہے، جیسا کہ سواری مع سامان کے گم ہو جانے کے بعد مل جانے پر اور غائب شدہ بچے کی واپسی پر ہوتی ہے۔ اسی لئے گناہوں اور خطاؤں سے توبہ کرتے رہنا ہر شخص پر فرض ہے۔ اگر نیکیوں کے ذریعہ آوارگی عمل سے بچ بھی جائے تو آوارگی خیال سے بچنا مشکل ہے۔
اللہ والوں کی زندگی بندگی عمل اور توبہ و انابت کا ایک نمونہ ہے اور انبیاء کرام معصوم ہوکر بھی دن میں ستر(۷۰) بار توبہ کرتے ہیں تو گنہگار بندے مخلوق میں سب سے زیادہ توبہ کے محتاج ہیں۔
’’حسنات الابرار سیئات المقربین‘‘ کے تحت خوف اور عشق و محبت میں توبہ کرنے والوں کے درمیان بڑا فرق ہے۔ اسباب توبہ کو فراہم کرکے، توفیق توبہ کی دولت سے نوازاجانا بھی ستر(۷۰) ماؤں سے زیادہ محبت رکھنے والی ذات کی کرم فرمائی ہے کہ اپنے دست کرم سے انسان کو بناکر اس کی صفت ’’اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا‘‘ بیان فرمائی اور جب انسان نادانی و بشری کمزوریوں کی وجہ سے ’’حُبُّ الشَّهَوٰتِ‘‘ میں گھر جائے، پھر بارگاہ قدوسیت میں سچے دل سے توبہ کرلے تو پروردگار عالم ہر قسم کے مجرمانہ داغوں کو اپنے دامن کرم میں اس طرح چھپا لیتا ہے کہ کسی کو اس کی خبر ہی نہ ہو اور حق تعالی نے توبہ کا حکم دے کر توبہ کی قسمیں بھی بیان فرما دیا، جو فضل در فضل ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ’’توبہ کرنے والے جب توبہ کریں تو توبۂ نصوح کریں‘‘۔ نصوح کے معنی لغت میں خلوص اور خیر خواہی کے ہیں اور اصطلاح شرع میں ’’توبۃ النصوح‘‘ وہ توبہ ہے، جو ریا و نفاق سے پاک ہو اور تائب کی ذات کے لئے خیر خواہی و نفع کا سبب ہو اور جو دامن گناہوں سے تار تار ہو گیا ہے اور جس کے ایمان و عمل میں جو شگاف آگیا ہے، وہ ایسا درست ہو جائے گا کہ دوسروں کے لئے نصیحت کا آئینہ دار بن جائے۔