جائداد کی تقسیم شریعت کے علوم و فنون میں ایک مستقل اورا ہمیت کا حامل فن ہے ، اس کو ’’علم الفرائض ‘‘ اور ’’علم المیراث‘‘ بھی کہتے ہیں، اس فن کی اہمیت اورضرورت کے پیش نظر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اس کے سیکھنے اور سکھانے کی ترغیب دی۔ چنانچہ حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھا ؤ ، فرائض ( جائداد کی تقسیم کا فن) سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھاؤ کیونکہ میں اس دار فانی سے کوچ کرنے والا ہوں اور میرے بعد یہ علم سمیٹ لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ کسی فریضہ (تقسیم جائداد کا مسئلہ ) سے متعلق دو آدمیوں میں اختلاف ہوگا تو ان کو کوئی ایسا نہیں ملے گا جو ان کے درمیان فیصلہ کردے ۔ ( حاکم ، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیہ ) ایک دوسری روایت میں نبی اکرم ﷺ نے اس فن کے سیکھنے کی ترغیب دیتے ہوے اس کو نصف علم ( آدھا علم ) قرار دیا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جائداد کی تقسیم کا فن قدرے مشکل ضرور ہے اسکو تھوڑی توجہ اور محنت سے سیکھا جا سکتا ہے لیکن یہ ایسا فن ہے جو ایک مرتبہ سیکھنے سے محفوظ نہیں رہتا ہے بلکہ سرکش اُونٹ کے مانند ہے جس کو ہمیشہ قید کر کے رکھنا پڑتا ہے اور تھوڑی غفلت ہوتے ہی وہ انسان کی گرفت سے نکل جاتا ہے ۔
علوم شریعت کا ہر طالبعلم یہ فن پڑھتا ہے اور سیکھتا ہے لیکن ہزار ہا علماء میں نہایت معدودے چند علماء ہوتےہیں جو اِس فن پر کامل قدرت رکھتے ہیں اور برجستہ مسئلہ کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور بالعموم دار الافتاء جامعہ نظامیہ میں 60% سے زائد مسائل جائداد کی تقسیم کے آتے ہیں اور عموماً عزیز و اقا رب بھائی بہنوں اور اولاد میں اختلافات و نزاعات کی اہم وجہہ جائداد کی تقسیم ہوتی ہے ۔ اسی مال وزر کی وجہ سے خونی رشتوں میں دڑاڑیں آجاتی ہیں۔ بات چیت کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، ایک دوسرے کی صورتوں کو دیکھنا گوارہ نہیں کرتے ۔ یہ اختلافات کا سلسلہ اُن تک محدود نہیں رہتا بلکہ اُن کی اولاد بھی اس سے متاثر ہو جاتی ہے اور ایک دوسرے کی اولاد کے مابین رنجش میں اضافہ ہوجاتا ہے جس کے نتیجہ میں آداب ، احترام ، عزت ، تعظیم ، پیار و محبت ، شفقت و عنایت و دیگر آداب اسلام و احکامِ شریعت معطل ہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھی نوبت تو کورٹ کچہریوں کے حدود پار کر کے قتل و خون تک پہنچ جاتی ہیں ۔ غیر مسلمین میں اس قسم کے اختلافات ، نزاعات اور قتل وخون ہو تو کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ دنیا ہی اُن کا مقصد و ہدف ہےلیکن آخرت پر ایمان رکھنے والی حساب وکتاب سزاو جزا حشر و نشر پر یقین رکھنے والی قوم اس میں مبتلا ہو تو قابل صد افسوس ہے۔
واضح رہے کہ صاحب جائداد کی زندگی ہیں اس کی مملوکہ ، مکسوبہ ، موہو بہ ، منقولہ اور غیر منقولہ تمام تر جائداد میں اسکی بیوی اور اولاد کا کوئی حق و حصہ نہیں اور صاحب جائداد اپنی ملکیت میں ہر قسم کے تصرف کا کامل اختیار رکھتا ہے ۔ وہ حسب مرضی مال و جائداد کو کسی بھی مصرف میں خرچ کر سکتا ہے ۔ اس کے جیتے جی اس کی جائداد میں اسکی اولا د یا کسی اور کا کوئی حق متعلق نہیں ، کوئی اس کوتصرف سے نہیں روک سکتا اور نہ ہی اس کی زندگی میں اس سے اولاد میں جائداد تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ وارث کا حق صاحب جائداد کے انتقال کے بعد ہوتا ہے ، زندگی میں نہیں ۔ بعض نا خلف اولاد اپنے والدین کو اُن کی حین حیات جائداد تقسیم کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اور نہ کرنے پر اُن سے نازیبا سلوک کرتی ہے، ایذائیں دیتی ہیں اور بسا اوقات ضعیف ماں باپ اُن کی زیادتیوں سے تنگ آکر دارالافتاء کا رُخ کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ فلاں لڑکا تقسیم جائداد کا مطالبہ کر رہا ہے اور ظلم کر رہا ہے ، شرعی لحاظ سے اس کا کیا حصہ بنتا ہے؟ بتائیے ہم اس کو دیکر سبکدوش ہو جانا چاہتے ہیں تو اُن کو جواب دیا جاتا ہے کہ اُن کی زندگی میں اُن کی اولاد کا کوئی حق نہیں اور نہ ہی وہ مطالبہ کرسکتے ہیں ۔ اگر اُن کو اُس وقت جائداد کا کچھ حصہ دیا جائے یا مال و دولت کا مقررہ حصہ دیا جائے تو یہ ہبہ ہوگا اور اُن کو قبضہ دیتے ہی وہ اس کے مالک ہوجائیں گے لیکن جب صاحب جائداد کا انتقال ہوگا تو اُسکی جائداد میں اس لڑکے کا بھی حق متعلق ہوجائے گا اور وہ لڑکا بحیثیت وارث دیگر لڑکوں کے برابر حصہ پائیگا کیونکہ زندگی میں دینا ہبہ ہے اور ہبہ کا وراثت سے کوئی تعلق نہیں ۔ مخفی مباد کہ صاحب جائداد خود اپنی مرضی سے اپنی جائداد اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہے تو یہ ’’عطا‘‘ و ’’ہبہ‘‘ کہلاتا ہے ، وہ اپنے لئے جتنا چاہئے رکھ لیکر مابقی اپنی اولاد میں سب کو برابر برابر یا کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دے سکتا ہے ۔ اگر کسی لڑکا یا لڑکی کو اس کی اطاعت و فرمابرداری یا خدمت گذاری یا ضرورتمندی کے پیش نظر زیادہ دینا چاہے تو اُسکو اختیار ہے ۔ اولاد کو سوال کرنے کا حق نہیں کہ وہ دوسرے کو زائد اور کسی کو کم کیوں دے رہا ہے ۔ مگر یاد رہے کہ کسی لڑکا یا لڑکی کو نقصان پہنچانے کے ارادہ سے کم زیادہ نہیں دے سکتا۔ اگر کسی کو نقصان پہنچانے کا قصد ہو تو ایسی صورت میں بلالحاظ لڑکا و لڑکی سب کو برابر برابر دینے کا حکم ہے کیونکہ زندگی میں اولاد کے درمیان عدل و انصاف کا حکم ہے۔ بخاری ومسلم میں حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم اللہ تعالیٰ سے ڈروا اور اپنی اولاد میں عدل و انصاف کا معاملہ کرو۔ (متفق علیہ ) اگر کوئی شخص اپنے کسی لڑکا لڑکی کو کل جائداد ہبہ کر دے اور دوسروں کو محروم کردے تو ہبہ تو درست ہو جائےگا وہ لڑکا اُس جائداد کا مالک تو ہو جائیگا مگر انصاف نہ کرنے کی بناء وہ شخص گنہگار ہوگا ۔ مال و دولت اور مکانات و جائداد کی محبت نے مسلمانوں کے دل ودماغ سے خونی رشتہ داری کی عظمت و احترام کو بالکلیہ محو کر دیا ہے ۔ وہ دنیا طلبی میں اسقدر سنگدل ہو گئے کہ اُن کو ماں باپ اور بھائی بہنوں کی عظمت وحرفت کا پاس و لحاظ نہ رہا ۔ جوان اولاد ضعیفی میں نے اپنے ماں باپ کا سہارا بننے کی بجائے اُن کی زندگی بھر کی محنت و جمع پونجی کو حاصل کرنے کے درپے رہتے ہیں اور ان کو نت نئی تکلیف پہنچاتے ہیں جبکہ مانباپ کی زندگی میں اُن کی جائداد میں اُن کی اولاد کا کوئی حق و حصہ نہیں ہے ۔ بسا اوقات مانباپ اپنی اولاد پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی تمام تر جائداد اپنی اولاد میں بھی تقسیم کر دیتے ہیں اور جب ہر ایک اپنے اپنے حصہ قابض ومتصرف ہو جاتا ہے تو مانباپ کی ذمہ داری ان پر گراں ہوجاتی ہے بلکہ اُن کا وجود اُن کو بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے۔ ایک ضعیف شخص نظامیہ آیا اور اُس نے اپنی دکھ بھری کہانی سنائی کہ اس نے اپنی منقولہ و غیرمنقولہ تمام تر جائداد اپنے اکلوتے بیٹے کے نام کر دی اور وہ بیٹا ہی اپنے باپ کو گھر سے نکالدیا، اُس کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ وہ اپنی آنکھوں میں آنسو لا کر بچوں کی طرح رو رہا تھا ۔ اُس کو فتوی دیا گیا کہ باپ اپنی اولاد کو جائداد ہبہ کر دے اور اُس کے بعد اسکو اپنی ضروریات و گزر بسر کے لئے ہبہ کردہ جائداد کو واپس لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو وہ بیٹے کو دی ہوئی جائداد واپس لے سکتا ہے ۔
اس طرح ایک کروڑ پتی شخص دار الافتاء آیا ، اپنے حالات سنانا شروع کیا اور جب اس نے اولادکی نافرمانی اور جائداد تقسیم کرنے کے بعد اُن کی بے رخی کا ذکر کیا تو وہ اس قدر مغلوب ہو گیا کہ وہ اولاد کی ایذا رسانی کو بیان نہ کرسکا ۔ مجھے آج بھی دو منظر یاد ہے جب ایک ضعیف خاتون اپنے چار لڑکوں کے ساتھ جائداد کے تنازعہ کی یکسوئی کے لئے آئی اور اولاد کی ایذا رسانی کو بیان کرتے ہوئے جذبات میں مغلوب ہوگئی اور کہنے لگی کہ مفتی صاحب یہ لڑکا مجھے اسطرح نازیبا کلمات کہتا ہے ، اسطرح مجھے گالیاں دیتا ہے۔ میں زندگی کے کسی موڑ پر اس دکھ بھرے منظر کو نہیں بھول سکتا ۔ افسوس کہ یہ اولاد ہیں یا سنگدل جانور ہیں جو دنیوی مال و متاع کےلئے اپنے مانباپ کو ستاتے ہیں اس لئے حضرت مفتی محمد عظیم الدین مرحوم سابق صدر مفتی صاحبؒ کے پاس جب بھی کوئی زندگی میں جائداد تقسیم کرنے کے لئے مشورہ کی خاطر آتا ہے آپ اُس کو دو ٹوک مشورہ دیتے ہیں کہ جیتے جی کبھی ایسی غلطی نہ کرو اور کبھی اولاد کے نام پر ہبہ کرکے شرمندہ مت ہو ۔