جامعہ نگر کے رہائش علاقے میں دوبچوں میںآگ میں جھلس کا موت

,

   

دہلی فائیرسرویس نے تین فائیر اسٹیشنوں سے چھ پانی کی گاڑیاں مقرر کی تھیں ‘ مگر اس اپریشن میں کافی مشکلات پیش آرہی تھیں کیونکہ بڑے پیمانے پر ٹریفک جام ہوگیا تھے او رکئی لوگ راستے میں پھنسے ہوئے تھے

نئی دہلی۔منگل کی دوپہر جنوبی دہلی کے جامعہ نگر میں ایک تین منزلہ گھر کے باہر آگ لگنے کی وجہہ سے اٹھ سالہ اور دس سالہ دوبچوں کی موت ہوگئی ۔ مذکورہ دونوں رشتہ کے بھائی بہن عائشہ اور ظہیب عمار تمیں تین چار عورتوں اور دیگر تین بچوں کے ساتھ پھنس گئے تھے۔

مقامی لوگوں نے مذکورہ خاندان کو باہر لانے میں مدد کی ‘ وہ اندر ہی رہ گئے۔ ظہیب غازی آباد سے اپنے ماں کی ساتھ جامعہ نگر آیاتھا اور دونوں ہی امتحانات کے بعد اپنی تعطیلات کے مزے لے رہے تھے۔ ان کی دادا ساٹھ سالہ یسین کی کی یہ ذاتی عمارت تھی جو کہ خاندان کے بیس لوگوں کا مکان ہے۔

جب گھر میںآگ لگی اس وقت گھر کے مرد مقامی مسجد گئے تھے۔

ظہیب کے والد دلشاد نے اپنے جھلساہوا ہاتھ دیکھتے ہوئے کہاکہ ’’ ہم شدید آگ او ردھویں کی وجہہ سے اندر جا نہیں سکتے تھے۔ فائیر فائیٹرس وقت پر نہیں پہنچے‘‘۔

دہلی فائیرسرویس نے تین فائیر اسٹیشنوں سے چھ پانی کی گاڑیاں مقرر کی تھیں ‘ مگر اس اپریشن میں کافی مشکلات پیش آرہی تھیں کیونکہ بڑے پیمانے پر ٹریفک جام ہوگیا تھے او رکئی لوگ راستے میں پھنسے ہوئے تھے۔

فیملی کے کچھ لو گ ٹریفک کو سنبھال رہے تھے تو کچھ لوگ گھر کی کھڑکیاں توڑکر عمار ت میں داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے تو کچھ لوگ نقاب لگا کر گھر میں داخل ہونے کی کوشش کرتے اور کچھ دیر بعد کھانستے ہوئے باہر آجاتے ۔

نہرو پارک فائیر اسٹیشن کے ایک افیسر نے کہاکہ ’’ وقت پر ہم پہنچ گئے ۔ پہلی منزل آگ کے شعلوں میں لپٹی ہوئی تھی ۔ لڑکی کے فرنیچر کی وجہہ سے آگ تیزی کے ساتھ پھیل رہی تھی۔ گروانڈ فلور پر کرایہ پر دیاگیاتھا جس کی وجہہ سے آگ لگی‘‘۔

ڈی سی پی ساوتھ ایسٹ چینوئی بیسوال نے کہاکہ شرٹ سرکٹ کی وجہہ سے آگ لگی۔انہوں نے کہاکہ’’ اس کی شروعات پہلی منزل ہوئی اور وہ اوپر تک پھیلتے چلی گئی۔ دوسری منزل پر آگ کو قابو میں کرلیاگیا۔ دو بچوں کو ہولی فیملی اسپتال لے جایاگیاجہاں پر ڈاکٹرس نے انہیں مردہ قراردیا‘‘ ۔

ایک پولیس افیسر نے کہاکہ دوبچوں کی نعشیں شدید جھلسی ہوئی حالت میں ملی ہیں۔ ٹریفک میں فائیرٹنڈرس کے پھنسے ہونے کی وجہہ سے مقامی لوگوں نے بچاؤ کا کام کرنے کی کوشش کی ۔ ایک کباب کی دوکان والے نصیر نے سیڑھی کے سہارے سامنے کی عمارت پر چڑھ گیا۔

نصیرنے پولیس کو دئے گئے اپنے بیان میں کہاکہ’’ عورتیں او ربچے چھت پر تھے۔ وہ مدد کے لئے چیخ رہے تھے۔ میں رسی کی مدد سے باندھا ہوا تھا اوردوسرے سیڑھے پکڑے ہوئے تھے۔ میں کئی فٹ اونچائی پر پہنچا اور ایک بچے کو اپنی پیٹھ پر لے کر نیچے آیا۔

عورتوں کو اٹھانا کافی مشکل تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ سیڑھی نے ہم سب کو بوجھ سنبھالا‘