مولانا ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی
نام: عبداﷲ ۔ کنیت : ابوبکر۔ لقب : صدیق، عتیق۔ قبیلہ : قریش
والد کا نام : عثمان (کنیت ابوقحافہ) والدہ کا نام : سلمہ (کنیت ام الخیر)
ولادت: مکۂ مکرمہ میں واقعۂ فیل کے کم و بیش تین برس بعد
وصال : ۲۲/جمادی الاخری ۱۳ ھ
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : أصحابی کالنجوم (میرے صحابہ ستاروں کے مثل و مانند ہیں) فبایھم اقتدیتم اھتدیتم (پس تم میں سے جو کوئی انکی اقتداء کریگا، ہدایت پاجائیگا)۔ (ترمذی، دیلمی)
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تمام انبیاء اور رُسلِ عظام میں افضل و اعلیٰ ہمارے نبی حضور رحمت دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔ اور س کے بعد خلیفۂ اول، یار غارنبی، صاحب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، جانشینِ حبیب خدا، تاجدارامامت حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کی فضیلت، تمام صحابۂ عظام اور دنیا کے دیگر تمام لوگوں میں سب سے زیادہ ہے۔
اسلامی تاریخ اور کتبِ سیرت کے مطالعہ کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ابتداء ہی سے حضورپاک صلی اﷲعلیہ وسلم اور خلیفۂ اول رضی اﷲعنہ کے درمیان گہرے مراسم و روابط رہے۔ ایکدوسرے کے پاس آمد و رفت، معاملات پر صلح و مشورہ کا معمول رہا۔ مزاج میں اعتدال و یکسانیت کی وجہ باہمی انس و محبت کمال درجہ کو پہنچ چکی۔ بالغ مرد حضرات میں سب سے قبل اسلام قبول کرنے والے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲعنہ ہی ہیں۔ گویا ہراعتبارسے آپ کو (انبیاء و رُسل کے بعد تمام صحابہ اور دیگر قیامت تک آنے والے لوگوں میں) ایک اونچا مقام حاصل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خالق کائنات اﷲ رب العزت نے کلام پاک میں کئی مقامات پر حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالی عنہ کے متعلق بیان فرمایا ہے، : ’’اگر تم ان کی مدد نہ کروگے تو بے شک اﷲ تعالیٰ نے ان کو مدد سے نوازا، جب کافروں نے انہیں نکال دیا تھا، وہ دو میں سے دوسرے تھے جب کہ دونوں غار ثور میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے فرمارہے تھے: غمزدہ مت ہو، بے شک اﷲ سبحانہ وتعالیٰ ہمارے ساتھ ہے، پس اﷲ تعالیٰ نے ان پر اپنی سکونت کو نازل فرمایا اور انہیں ایسے لشکروں کے ذریعہ طاقت بخشی جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور اس نے کافروں کی بات کو پست کردیا، اور اﷲ سبحانہٗ وتعالیٰ کا فرمان تو بلند و بالا ہی ہے، اور اﷲ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے‘‘۔ (سورۂ توبہ، آیت۴۰)
اسی طرح خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی شان میں کچھ اور بھی قرآنی آیات نازل ہوئیں، جن میں سے باعتبار فضیلت سورۂ توبہ کی چالیسویں آیت کے علاوہ دیگر (۶) آیات حسب ذیل ہیں: ایک : سورۂ زمر آیت نمبر(۳۳) دو : سورۃاللیل میں پانچ آیات (۱۷تا ۲۱)، یہ تمام آیتیں اپنی اپنی جگہ بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی شان بیان کرنے کیلئے اوپر ذکر کردہ سورۂ توبہ کی آیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اُس آیت مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے بڑی ہی باریکی کے ساتھ کئی مضامین شامل کردیئے، جس کا تعلق نبی آخرالزماں حضرت محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان رسالت سے بھی ہے اور شان حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے بھی۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ ’’ ثَانِىَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِى الْغَارِ‘‘ ، ’’جبکہ وہ دونوں کے دونوں غار ثور میں تھے‘‘۔ وہ دونوں ہجرت کرنے والے جن میں سے ایک حضور نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور دوسرے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ہیں۔ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ : جب حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے ساتھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے فرمارہے تھے: لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّهَ مَعَنَا ’’غمزدہ مت ہو بے شک اﷲ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔
قرآن مجید میں اﷲ رب العزت نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کا جو مقام ومرتبہ بیان فرمایا ہے، صحابۂ کرام میں کسی اور کو اس طرح کا مقام و مرتبہ عطا نہیں کیا۔ سورۂ فاتحہ کی پہلی آیت اَلْحَـمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَسے لے کر مِنَ الْجِنَّـةِ وَالنَّاسِتک اگر بغور پڑھاجائے تو یہ بات بالکل عیاں ہوجائے گی کہ صحابۂ کرام کی مجموعی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ ہی وہ واحد شخصیت ہیں، جن پر اﷲ رب العزت نے نص صریح کے ساتھ مہر صداقت لگادی۔ اس بات میں کسی بھی جماعت کے علمائے تفسیر کے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے، نہ مفسرین میں، نہ محدثین میں اور نہ تاریخ داںمیں۔ سب کے پاس یہ بات مسلم و معتبر ہے کہ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کی ذات گرامی ہی ہیں۔
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود اگر کو ئی شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کی صحابیت کا انکار کرے تو وہ اِس نص قرآنی کا انکار کرنے والا ہو جائے گا ۔ کیونکہ انکار کی صورت میں اس نے نہ صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کی صحابیت کا انکار کیا، بلکہ اس نے نص قرآنی کا بھی انکار کیا ہے۔
خلیفۂ اول رضی اﷲعنہ کو جنگ بدر، احد، خندق، تبوک، حدیبیہ، نبی نظیر، بنی مصطلق، خیبر اور بشمول فتح مکہ تمام غزوات میں آقائے دوجہاں حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کی ہمراہی کا شرف حاصل ہوا ہے۔ غزوۂ تبوک میں اطاعتِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی جو مثال آپ رضی اﷲعنہ نے قائم کی، اسکی نظیرملنا دشوار ہے۔ حضورعلیہ السلام کی ترغیب پر تمام صاحبِ استطاعت صحابہ نے دل کھول کر اسلامی لشکر کی مدد کی۔ اسوقت حضرت ابوبکرصدیق رضی ا ﷲعنہ اپنے گھر کا پورا سامان لے آئے۔ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : ائے ابوبکر ! گھر والوں کیلئے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ عرض کیا گھر والوں کیلئے اﷲ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کافی ہیں۔ جیسا کہ کہا گیا ہے:
پروانے کو چراغ ہے ، بلبل کو پھول بس
صدیقؓ کے لئے ہے خدا کا رسولؐ بس
سفر میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جب بھی ہو تے تو وہ حضور کے آرام و راحت کا پورا پورا خیال رکھتے۔ جب بھی سرکاردوعالم صلی اﷲعلیہ وسلم پر دھوپ کے آثار نظر آتے تو دھوپ سے بچانے کیلئے چادر تان کر کھڑے ہوجاتے۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲعنہ اپنے والدین کا بہت احترام کرتے تھے۔ تمام عمر دل و جان سے انکی خدمت کرتے رہے۔ اسی طرح بیویوں سے حسن سلوک، مریضوں کی عیادت، انتقال کرجانے والوں کے متعلقین سے اظہارتعزیت، بخل سے سخت نفرت، خوش طبعی، نظافت، بے تعصبی، اولاد سے محبت، بچوں سے پیار، خاندان نبوت سے محبت، خشیتِ الٰہی، سلام کرنے میں پہل، توکل علی اﷲ، مہمان نوازی، عاجزی و انکساری، ایثار و قربانی، راہِ خدا میں خرچ ، عزم و ہمت، مردم شناسی، پریشان حال کی مدد اور خود داری کو یہ سب صورتیں خلیفۂ اول رضی اللہ عنہ میں بدرجہ اتم موجود رہیں۔
اسی طریقہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو اللہ تعالیٰ اور بارگارہ رسالت مآب ﷺمیں خصوصی شان، اہمیت اور فضیلت حاصل تھی۔ قرآن مجید میں آپ رضی اﷲعنہ کی عظمت و شان کو بیان کرنے کیلئے کئی آیتوں کا نزول ہوا۔ چنانچہ حضور صلی اﷲعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ پر جس کسی کا احسان تھا، میں نے بطورِ احسان اس کا بدلہ چکا دیاہے، مگر ابوبکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں، جن کا بدلہ بروز قیامت اﷲ تعالیٰ عطا کرے گا۔
جب صحابیتِ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر ایمان لانا، قرآن پر ایمان لانا ہے تو سب کو سمجھ لینا چاہئے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ کا مقام و مرتبہ اور عزت و تکریم کیا ہے اور صحابی کو صحابی ماننے کا حق امت پر کس نوعیت کا ہے؟ اب جو لوگ اس اہم مسئلہ میں احتیاط سے کام نہیں لیتے، محض سنی سنائی باتوں پر بڑے بڑے صحابۂ عظام پر تنقید کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کو اپنے ایمان کی خبرگیری کرنی چاہئے۔ بس اﷲ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین
zubairhashmi7@gmail.com